اگلے مالی سال2025-26ء کا بجٹ نہ تو تاحال پارلیمنٹ سے منظور ہوا ہے نہ ہی اس کے اطلاق کی قانونی اور آئینی طور پر مقررہ تاریخ ابھی آئی ہے، یعنی پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد نئے مالی سال کے بجٹ کا اطلاق آئندہ یکم جولائی سے ہی ہو سکتا ہے، مگر عام مارکیٹ میں مختلف اشیاء کے نرخ جس طرح بلندئی پرواز پر مائل دکھائی دیتے ہیں، ان کو کنٹرول کرنے کی کوئی صورت بھی دکھائی نہیں دیتی، اس کے برعکس گزشتہ روز وفاقی ادارہ شماریات نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں مہنگائی میں اضافے کی گرفتار میں کمی کا رجحان بدستور جاری ہے اور حالیہ ایک ہفتے کے دوران ہفتہ وار مہنگائی میں اضافے کی رفتار میں اشاریہ 27 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، تاہم تازہ ترین اخباری اطلاعات کے مطابق گھی ،تیل جو بنیادی انسانی ضروریات میں سر فہرست ہیں کی قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ متعلقہ کمپنیوں کی ہٹ دھرمی کا بین ثبوت ہے، علاوہ ازیںچینی کی قیمتوں میں اضافے سے اس وقت چینی 200 روپے کلو تک پہنچ چکی ہے اور خدشہ ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی اور اس صورتحال کو قابو کرنے کیلئے ضروری اقدام نہ اٹھائے گئے تو یکم جولائی کے بعد ادارہ شماریات کے سارے دعوے سراب ثابت ہوں گے، اور مہنگائی کی شرح میں جس انتہائی معمولی یعنی اشاریہ 27 فیصد کمی کے دعوے کئے جا رہے ہیں وہ الٹ ہو کر مہنگائی میں مزید اضافے کی صورتحال میں ڈھل جائیں گے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ ابھی گزشتہ روز ہی حکومت نے ملک میں ( ممکنہ اور مبینہ ) چینی کی کمی پوری کرنے کیلئے 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، حالانکہ یہ کھیل ہر سال کھیلا جاتا ہے ،پہلے ملک میں چینی اور گندم کے بمپر فصلوں کی پیداوار کے دعوے کرتے ہوئے چینی اور گندم مافیاؤں کے انکے میں آ کر ان اشیاء کی برآمد کی اجازت دی جاتی ہے اور پھر کچھ مدت بعد اس کی کمی کا رونا روتے ہوئے یہی اشیاء واپس درآمد کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے، دونوں صورتوں میں مختلف طبقوں کی تجوریوں کا وزن بڑھتا ہے، اور ہر بار یہ ساری واردات مبینہ” ملی بھگت” سے ہی کی جاتی ہے جبکہ عوام پر مہنگائی مسلط کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جاتی۔
