صوبائی دارالحکومت پشاور میں گزشتہ( جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی) رات ہر گھنٹہ آدھ گھنٹہ کی مسلسل لوڈ شیڈنگ کے بعد ہفتے کی صبح 5 بجے سے لگاتار چھ گھنٹے کی مسلسل اور طویل بجلی بندش نے شہریوں کو جس عذاب سے دوچار کیا، اس سے پہلے اس کی مثالیں کم ہی دیکھنے کو ملتی رہی ہیں، اس صورتحال کیخلاف شہریوں نے سڑکوں پر نکل کر جس احتجاج کا مظاہرہ کیا اور مختلف علاقوں میں اس ناروا اور شیڈنگ کیخلاف شور وغو غا کیا، اس کی مثال بھی پہلے شاید ہی ملتی ہو، اس صورتحال کا کارن اخباری اطلاعات کے مطابق شہری علاقے کو چمکنی فیڈر سے منسلک کیا جانا بتایا جاتا ہے، احتجاجی مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ بلال ٹاؤن اور ارد گرد کے علاقوں کو دیہی فیڈر سے نکال کر شہری علاقے کے فیڈر میں شامل کیا جائے، اس ساری صورتحال کا ایک دلچسپ مگر عبرت ناک پہلو یہ ہے کہ لوڈ شیڈنگ کیخلاف چارسدہ روڈ پر ایک خاتون نے اکیلے ہی پوری سڑک کو بلاک کر کے جس طرح احتجاج کی ایک نئی طرز متعارف کی، اس سے دیگر عوام کو بھی احتجاج کی راہ دکھائی، پشاور کی حد تک یہ یقینا ایک انوکھی مثال ہے جہاں تک اتنی قیامت خیز گرمی میں جبکہ پشاور کی تاریخ میں درجہ حرارت پہلی بار اس قدر ہائی ہو گیا تھا پیسکو حکام کی جانب سے اتنی طویل لوڈ شیڈنگ کا کوئی جواز دکھائی نہیں دیتا، سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب خود واپڈا کی پالیسی کے تحت جن علاقوں میں بجلی بلوں کی ادائیگی رضاکارانہ طور پر درست طریقے سے ہو رہی ہو تو ان علاقوں کو دیہی فیڈرز میں شامل کرنے کی تک سمجھ سے بالاتر ہے، گزشتہ روز اور اس سے پہلی رات سے پشاور کے جن علاقوں کو عذاب میں بلاوجہ مبتلا کیا گیا ان میں گلبہار، بلال ٹاؤن اور دیگر ملحقہ علاقے شامل ہیں، ان علاقوں میں بلوں کی ادائیگی بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا بلکہ محتاط اندازے کے مطابق90/95 فیصد صارفین بجلی بل ادا کرتے ہیں، پھر ان شہری علاقوں کو دیہی علاقے کے فیڈر سے بغیر کسی وجہ کے منسلک کر کے ان کو مشکلات سے دوچار کرنے کا کیا جواز بنتا ہے ،مزید یہ کہ اب تو ان علاقوں میں کئی گھروں پر سولر سسٹم بھی نصب کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے دن کے اوقات میں بجلی کے سسٹم پر بوجھ بھی کم ہو چکا ہے مالبتہ رات کے وقت جب سولر سسٹم کام نہیں کرتے تو بجلی استعمال کی جاتی ہے، ایسی صورت میں ان شہری علاقوں کو دیہی فیڈر سے منسلک کرنا انتہائی زیادتی ہے ،متعلقہ حکام اس نا انصافی کا فوری تدارک کرتے ہوئے ان علاقوں کو واپس شہری فیڈر کیساتھ منسلک کرنے کیلئے اقدامات کریں تاکہ شہریوں میں بے چینی نہ پھیلے ۔
