ایران کی تین اہم ایٹمی تنصیبات پر اتوار کو ایرانی وقت کے مطابق صبح تین بجے امریکی حملے کیساتھ امریکہ وا ایران کی 46 سالوں سے جاری سرد جنگ اسرائیل کی سازشوں سے ایک ایسے اعلانیہ فوجی تصادم میں تبدیل ہونے کو ہے جس کو مشرق وسطٰی میں ایک ایسی علاقائی جنگ کی ابتداء سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے جو اپنے اندر اس خطے کے نقشے میں سیاسی و جغرافیائی تبدیلیاں لانے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ گزشتہ صبح اس امریکی فوجی کاروائی میں جو کہ پاکستان کے وقت کے مطابق صبح ساڑھے چار بجے شروع ہوئی امریکوں کے مطابق”فور دو” کااٹامک فیول انریچمنٹ پلانٹ جو کہ تہران کے جنوب مغرب میں 160 کلومیٹر کے فاصلے پر قم کے مقدس شہر کے مشکل گزار پہاڑی علاقے میں زیر زمین واقع ہے مکمل طور پر ادھیڑ کے رکھ دیا گیا ہے۔ایران کی بنیادی یورینیم افزودگی کی سائٹ ” ناتنز ”کو بھی مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے جو کہ تہران کے جنوب مشرق میں 150 تا 210 کلومیٹر کے فاصلے پر اصفہان کے تاریخی شہر کے ساتھ واقع ہے۔ تیسری ایٹمی تنصیب جس کو اصفہان نیوکلیئر ٹیکنالوجی سینٹر کے نام سے جانا جاتا ہے جو کہ تہران کے جنوب مشرق میں 350 کلومیٹر کے فاصلے پر اصفہان میں ہی واقع ہے اس کو بھی مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے اس طرح ایران کے تین اہم ایٹمی ٹیکنالوجی کے مراکز جو کہ زیر زمین گہرائی میں واقع تھے بالکل ختم کر دئیے گئے ہیں اور امریکی واسرائیلی دعوؤں کے مطابق اب ایران ایٹم بم بنانے کے قابل نہیں رہا۔ اس لحاظ سے اگر ان دعوؤں کو صحیح مان لیا جائے تو اسرائیل نے 13 جون کو ایران کیخلاف شروع کی جانیوالی اپنی لڑائی میں پہلا مقصد واضح طور پر حاصل کر لیا ہے جو کہ ایران کو ایٹمی صلاحیت سے محروم کرنا تھا۔ اسرائیل کے پاس اپنے اس بڑے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے وہ ٹیکنالوجیکل ڈھانچہ موجود نہیں تھا جس سے زیر زمین قائم ایٹم بم بنانے کے ایرانی مراکز کو تباہ کیا جا سکے اس لئے اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کی کوشش تھی کہ وہ امریکہ کو اس لڑائی میں گھسیٹ لیں جس کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم امریکی صدر ٹرمپ کو اس مقصد میں ٹریپ کرنے میں کامیاب رہے، اس طرح اب اعلا نیہ طور پر ایران کی جنگ دو بڑی طاقتوں سے ہے ایک اسرائیل ،غیر اعلانیہ ایٹمی طاقت۔اور ایک امریکہ اعلانیہ ایٹمی طاقت۔ امریکی ذرائع ابلاغ کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق اس ایکشن میں دیو ہیکل بی ٹو سپرٹ بمبار جہازوں کا چھ جہازوں پر مبنی ایک سکواڈرن استعمال کیا گیا، ایک جہاز میں موجودہ صدی کا ایٹم بم کے بعد سب سے خطرناک ترین تباہی پھیلانے والا بم جی بی یو 57 کے دو بم لوڈ کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک بم کا وزن 30 ہزار پونڈ یا 13600 کلوگرام یا 15 ٹن سے کچھ کم ہوتا ہے۔اس طرح یہ ریڈار پر نظر نہ آنے والا بی ٹو سپرٹ بمبار جہاز ایک وقت میں دو 30 ہزار پوائنٹ کے بم لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایران کی تنصیبات کیخلاف اس آپریشن میں یقینی طور پر دو جی پی یو 57 بم فی ایٹمی تنصیب استعمال کیے گئے ہوں گے جس کی تفصیلات مکمل طور پر ابھی سامنے نہیں آئی ہیں۔امریکی ذرائع نے تاہم تصدیق کی ہے کہ فوردو کے ایٹمی پلانٹ پر یہ بنکر بسٹر تباہ کن بم استعمال کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ دو پلانٹس پر ٹوما ھاک میزائلوں سے بھی حملہ کیا گیا ہے۔ ان بنکر بسٹر بموں کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ زیر زمین اپنے ہدف تک 200 فٹ یا 60 میٹر تک پہنچ کر عین ہدف کے اوپر جا کر پھٹتے ہیں اور بدترین تباہی پھیلاتے ہیں۔ایرانی ایٹمی تنصیبات کچھ اطلاعت کے مطابق پانچ سوفٹ زیر زمین واقع ہیں اس لئے ابھی ان ایٹمی تنصیبات کے نقصانات کا اندازہ کرنا قبل از وقت ہوگا۔ایرانیوں کا کہنا ہے کہ ان کی ایٹمی تنصیبات کو 60 فیصد حد تک نقصان پہنچایا گیا ہے اور انہوں نے احتیاطی طور پر تین دن قبل ہی کچھ اہم آلات اور اہم چیزیں اپنے ایٹمی پلانٹ سے کہیں اور منتقل کر دی تھیں لیکن اس دعوے کی کوئی باقاعدہ سرکاری تصدیق موجود نہیں ہے۔امریکی اس سے قبل ان بنکر بسٹر تباہ کن بموں کا استعمال کوسوو ، عراق اور افغانستان میں کامیابی کیساتھ کر چکے ہیں۔امریکی صدر نے اس کارروائی کے فوری بعد ایک نشری قومی تقریر میں اعلان کیا کہ ایران کی متذکرہ تین ایٹمی تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔انہوں نے اس کارروائی کو ایک مکمل کامیابی سے تعبیر کیا اور یہ دھمکی بھی دی کہ اگر ایران اب بھی امن قائم کرنے میں ناکام رہا تو اس بارا سٹرایئک کرنا اور زیادہ آسان اور ایران کیلئے نقصان دہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ اہم تنصیبات پر حملہ نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کارروائی کا مقصد ایران کوایٹمی طاقت بننے سے روکنا تھا۔ امریکی سینیٹ کی فارن افیریز کمیٹی کے سربراہ سینٹر جم رچ نے کہا ہے کہ یہ امریکہ کی جنگ نہیں ہے بلکہ اسرائیل کی جنگ ہے لیکن ہم نے اسرائیل کی مدد اس لئے کی کہ ہم ایران کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنا چاہتے تھے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی مدد جاری رکھے گا۔ ایران کی قیادت کی جانب سے ان کے وزیر خارجہ علی عباس عراقچی کا بیان صدر ٹرمپ کی تقریر کے برعکس بہت زیادہ تحمل و بردباری پر مبنی بین الاقوامی روایات کی روشنی میں آیا ہے انہوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو پرامن قرار دیتے ہوئے اس پر امریکی حملے کی پرزور مذمت کی اوراعلان کیا کہ ایران جوابی کارروائی کا محفوظ رکھتا ہے انہوں نے اس حملے کو بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر ،بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی دی ہوئی ہدایات اور بین الاقوامی اصولوں سے متصادم قرار دیا۔ ان کا یہ بیان واضح کرتا ہے کہ ایران اب بہت سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہے اور یہ اپنے پچھلے مؤقف پر بدستور قائم رہے گا۔دوسری جانب سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گتریز نے ایک بار پھر اقوام متحدہ کے رکن ملکوں سے کشیدگی کم کرنے کو کہا ہے ان کے خیال میں اس ایکشن سے خطے میں شدید کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان، چین ،روس نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا فوری اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔شمالی کوریا ،کیوبا کے علاوہ حماس، اسلامی جہاد اور حزب اللہ نے اس ایکشن کی سخت مذمت کی ہے۔ یمن میں موجود ایران کے حامی حوثی لڑاکوں نے اس ایکشن کے بعد امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایران کی حمایت میں آگے آئیں گے۔ خلیج کی عرب ریا ستوں نے بھی امریکی ایکشن کو نا پسندیدگی سے دیکھا ہے۔ اتوار کے دن دوپہر تک آنیوالی اطلاعات کے مطابق اسرائیل کے بڑے شہر تل ابیب اور حیفہ ایرانی بلاسٹک میزائلوں کی زد میں تھے۔خیال رہے کہ اس امریکی ایکشن میں کسی ایرانی میزائل یا بلاسٹک میزائل بنانیوالے سٹرکچر کو یا کسی اسلحہ خانے کو یا کسی فوجی ڈیپو کو نشانہ نہیں بنایا گیا ہے۔ امریکی ایکشن میں تباہ ہونیوالے مبینہ تین ایٹامک پلانٹس سے ابھی تک بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے مطابق کسی قسم کی تابکاری کا اخراج نہیں ہوا ہے۔ اس تمام صورتحال میں ایسا نظر آ رہا ہے کہ شاید ایران کے حامی گروپ حزب اللہ، حماس ،حوثی اور عراق میں موجود دیگر ایرانی گروپس اسرائیل کیخلاف کسی بھی وقت زمینی لڑائی میں آجائیں گے۔ لیکن مسئلہ اسرائیل کی مضبوط فضائی قوت کا ہے جو اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مشرق وسطیٰ صحرا جنگ کیلئے موزوں جغرافیائی خطہ ہے۔ اور اسی لحاظ سے فضائی جنگ کیلئے بھی آسان اہداف دیتا ہے۔ افغانستان کی بنسبت یہاں فضائی قوت سے اپنے آپ کو بچانا ناممکن ہے۔ اس لئے اسرائیل کو یہاں زمینیں افواج کو تباہ کرنا آسان ہے۔ اس کا حل کس حد تک میزایئلز اور ڈرونز کے استعمال میں ہے۔ ایران کس طرح اپنے حامیوں کو یہ ہتھیار اب دیتا ہے، اس کا فیصلہ بھی شاید جلد ہو جائے۔ آنیوالے چند دنوں میں مشرق وسطیٰ میں ایک مکمل جنگ ہونے یا نہ ہونے کا دارومدار اب ایرانی قیادت کے رویے پہ نظر آ رہا ہے۔ممکنہ طور پر ایرانی قیادت کسی بڑی جنگ سے گریز کریگی اور اسرائیل کو ایک لمبی اور تھکا دینے والے ملٹری صورتحال کے اندر ملوث رکھے گی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو پھر پورا مڈل ایسٹ ایک بدترین فوجی انارکی میں آ جائیگا۔
