حضور آپ سے کچھ مشورے بھی ہیں باہم

صفائی نصف ایمان کے فلسفے پر ایمان رکھنے والوں کی اپنی حالت کیا ہے ؟ اس حوالے سے آئے روز ہمارے کرتوت نہ صرف قابل توجہ ہیں بلکہ کسی نہ کسی حد تک باعث ” شرم” بھی ٹھہرائے جا سکتے ہیں، دنیا بھر میں خصوصاً ان پہاڑی علاقوں میں جہاں لوگ وقتی طور پر سیر و تفریح کیلئے جاتے ہیں یا پھر پہاڑی چوٹیوں کو سر کرنے کیلئے جو کوہ پیما جاتے ہیں وہ وہاں جا کر نہ صرف اپنے ساتھ ٹن، ڈبوں یا بوتلوں میں لے جانیوالی خوراک اور مشروبات کی باقیات جس مقدار میں وہاں کچرے کی صورت میں چھوڑ کر آ جاتے ہیں اب ان کے اس قدر ڈھیر ان علاقوں میں جمع ہو چکے ہیں کہ اگر ان کی باقاعدہ صفائی کا اہتمام نہیں کیا گیا تو ان برفانی علاقوں کا ماحول بھی ایک نہ ایک روز اس قدر پراگندہ ہو جائیگا کہ شاید ان برفانی پہاڑی چوٹیوں کے گلیشیئرز آہستہ آہستہ گرمی کے سیزن میں پگھل پگھل کر پانی کی صورت دریاؤں میں آتے ہوئے اس کچرے ،گندگی بلکہ غلاظت تک اپنے ساتھ بہاتے ہوئے اس پانی کو گدلا، گندا اور ناقابل استعمال کر دے گا ،یہ باتیں اس لئے یاد آئیں کہ 20 جون کے اخبارات میں شائع ہونیوالی ایک تصویر نے کم از کم ہمارے معاشرے میں صفائی ستھرائی کی صورتحال پر کچھ سوالات اٹھانا شروع کر دئیے ہیں، اس تصویر میں کاغان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے کچھ اہلکار جھیل سیف الملوک کے ارد گرد سیاحوں کے پھیلائے گئے کچرے کو صاف کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اس تصویر نے صفائی ستھرائی سے جڑے میونسپل داروں کی کارکردگی واضح کر دی ہے، جہاں تک جھیل سیف الملوک کے ارد گرد سیاحوں کی پھیلائی گئی گندگی اور کچرے کا تعلق ہے کاغان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی کارکردگی کی تحسین تو یقینا لازمی ہے، تاہم جو سیاح اس کچرے اور استعمال شدہ خوراک کے ڈبوں، پانی اور مشروبات کی بوتلوں اور تیار خوراک کے ٹن(Tin) وہاں پھیلانے کے ذمہ دار ہیں کیا ان پر کوئی اخلاقی ذمہ داری عاید نہیں ہوتی کہ وہ اگر کم از کم اپنی مذہبی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ” صفائی نصف ایمان ” پر ہی عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں تو شاید پورے ملک میں ایسی کوئی صورتحال پیدا نہ ہو سکے۔ پروفیسر طہٰ خان نے مدت پہلے کہا تھا
گھر میں جتنا کوڑا کرکٹ ہے گلی میں پھینک دو
پھر خدا ہی جانتا ہے کب یہ موقع آئے گا
آئے گا کوڑا اٹھانے کوئی ناظم یا وزیر
شہر میں آلودگی کا دن منایا جائے گا
طہٰ خان صاحب کے اس کلام نے ہمیں ماضی بعید میں پہنچا دیا ہے اور وہ یوں کہ ایک زمانے میں (60ء کی دہائی کا ذکر ہے) جب پشاور میں بلدیہ میونسپل کمیٹی کہلاتی تھی، ہر سال ہفتہ صفائی کا اہتمام کیا جاتا تھا، اس دور میں میونسپل حکام کی جانب سے ایک نیا جھاڑو شہر کے ڈپٹی کمشنر کے ہاتھوں میں تھما کر چوک یادگار یا پھر چوک قصہ خوانی صفانی بازارمیں( پہلے سے کچھ کوڑا کرکٹ اکٹھا کیا ہوتا تھا )ان کے ” مبارک ہاتھوں” سے اس کوڑا کرکٹ کو نئی نکوڑ جھاڑو کے ذریعے چند سٹروکس لگا کر صفائی مہم کا آغاز کر دیا جاتا اور پھر پورے ہفتے تک مسلسل کمیٹی کے خاکروب شہر کے بڑے بازاروں میں جاروب کشی میں عام دنوں کی نسبت زیادہ مستعدی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے، باقی شہر کے اندرونی علاقوں کا جہاں تک تعلق ہوتا تو اکثر گلیاں یا تو کچی ہوتیں یا جن علاقوں پر میونسپل کمیٹی مہربان ہوتی تو وہاں کی گلیاں اینٹوں کی بنی ہوتیں، ان گلیوں میں آذان فجر سے پہلے جاروب کش اور بہشتی (ماشکی ) ایک ساتھ آتے، ماشکی اپنے مشک سرکاری نل ( بمبوں) سے پانی بھر کر ان کچی گلیوں میں ہلکی ہلکی چھڑکاؤ کرتا آگے جاتا جبکہ جاروب کش( خاکروب) پیچھے پیچھے جھاڑو مارتا گلیوں کو صاف کرتے ہوئے نمازیوں کے مسجد جانے سے پہلے ہی کوڑا کرکٹ، گندگی اور دھول مٹی گرد وغیرہ کو ٹھکانے لگا دیتا تاکہ جب نمازی مساجد میں فجر پڑھنے کیئیے جائیں تو انہیں گلیاں صاف ستھری ملیں، البتہ جہاں تک ان گلیوں کی نالیوں کا تعلق ہے تو ان کی صورتحال بقول طہٰ خان کچھ یوں ہوتی ہے کہ
ہمیں ہر دم پشیمانی ہے اپنی کوچہ گردی سے
گھروں میں سارے بختاور بھلے اور چنگے بیٹھے ہیں
تیرے جلوے سے پہلے جانے کیا کیا دیکھنا ہوگا
تیرے کوچے میں بچے نالیوں پر ننگے بیٹھے ہیں
اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے بیچارے ماشقی اور خاکروب اس دور کے بچوں کے” کئے کرائے” پر پانی پھیرنے اور جھاڑو کیلئے سخت محنت سے دوچار ہوتے تھے، خیر وقت کب ایک سا رہتا ہے ،بدلاؤ تو آتا رہتا ہے، زندگی کے قرینے تبدیل ہوتے رہے دیسی ” غسلخانوں ” کی جگہ بدیسی غسلخانوں( لیٹرین) نے لے لی اور گلیوں کی نالیوں میں” آلودگی” کی شکل ہی بدلتی چلی گئی ،مگر ایک تو اچانک مغرب سے پلاسٹک دانے سے بنے ہوئے شاپنگ بیگز نے کیا سنبھالی کہ آلودگی کی ایک نئی قسم ایجاد ہوتی چلی گئی اور استعمال شدہ پلاسٹک بیگز گلیوں ،نالیوں میں تباہی پھیلانے لگے، اب ان کا علاج اگرچہ دریافت تو ہو چکا ہے اور تحلیل ہونے والے شاپنگ بیگز آ چکے ہیں مگر جن” مہربانوں ” نے پہلے پلاسٹک دانے سے شاپنگ بیگز بنانے کے کارخانے لگا رکھے ہیں ان پر حکومت نے کئی بار پابندیاں عاید لگائیں مگر ان پابندیوں کو جوتے کی نوک پر لکھنے کی عادت کون چھڑائے ؟ یہاں تک کہ پلاسٹک کے کچرے (استعمال شدہ ،گندگی کے ڈھیروں پر پڑے) شاپنگ بیگز کو ری سائیکل کر کے جو سیاہ رنگ کے پلاسٹک لفافے بنائے جاتے ہیں ان کے بارے میں ماہرین کی یہی رائے ہے کہ ان میں کھانے پینے کی اشیاء ڈالنا انسانی جانوں کیلئے شدید خطرات کا باعث ہیں، یعنی ان سے کینسر پھیلنے کے خدشات 100 فیصد ہوتے ہیں مگر شوئی قسمت سے ہم ہمارے ہاں سبزی، پھل فروٹ کیلئے یہی شاپنگ بیگز عام طور پر اس لئے استعمال کئے جاتے ہیں کہ یہ فریش شاپنگ بیگز کے مقابلے میں انتہائی سستے ہوتے ہیں، اب دکانداروں، تہہ بازاریوں اور ہتھ ریڑھیوں والوں کی بلا سے، اگر کوئی کینسر میں مبتلا ہوتا ہے بلکہ ذمہ داری تو وہ کارخانے دار بھی نہیں اٹھاتے جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ری سائیکل شاپنگ بیگز بنانے سے باز نہیں آتے
زندگی قصہء تلخچست کہ از آغازش
بسکہ آزر دہ شدم چشم بہ پایاں دارم
بات پر فضاء مقامات پر سیر و سیاحت یا پھر ٹریکنگ کیلئے جانیوالوں کے وہاں گندگی کے ڈھیروں میں اضافے کے مسئلے سے شروع ہوئی تھی، تاہم اب کچھ تنظیمیں بھی وجود میں ا چکی ہیں جو رضاکارانہ طور پر ان علاقوں سے کچرے کے یہ ڈھیر ہٹانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ حکومت خیبر پختونخوا نے ایسے پہاڑی سیر و تفریح کے مقامات پر گندگی جمع کرنے کیلئے ڈرم رکھ دئیے ہیں ،مگر اس کے باوجود اگر لوگ پھر بھی استعمال شدہ اشیاء ادھر ادھر پھینک دیتے ہیں تو اس کا علاج تو پھر بقول شخصے لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں ہے ۔
حضور آپ سے کچھ مشورے بھی ہیں باہم
پر اتنی جلدی بھی کیاہے، برا جئے تو سہی

مزید پڑھیں:  خطرے کی گھنٹی