عالمی امن کیلئے بڑھتے خطرات

ایک طرف جہاں ایران کے تین جوہری مقامات پرامریکہ کے حملے کے بعد ایران جوابی حملے کی تیاری کا عندیہ دے رہا ہے وہاں دوسری طرف سفارتی طور پر متحرک ممالک کی جانب سے کسی نہ کسی طرح جنگ بندی کی سعی ہو رہی ہے ایران کے پاس متعدد راستے ہیں جس میں دنیا کو تیل کی سپلائی اور تجارتی راستے آبنائے ہرمز کی بندش کا ممکنہ فیصلہ بھی شامل ہے جس سے چین سے لے کر دنیا کے بیشتر ممالک متاثر ہوں گے تاہم امریکہ پر اس کے اثرات زیادہ نہیں پڑیں گے جو تنازعے کا اصل فریق اور ایران کا ہدف ہے ان حالات میں روس، چین اور پاکستان کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی کے لیے قرارداد میں مشرق وسطیٰ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔یہ اقدام سلامتی کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس سے قبل کیا گیا ہے، فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ اس مسودے پرووٹنگ کب ہوگی۔دریں اثناء اسرائیلی حکام نے دعوی کیا ہے کہ امریکا ممکنہ طور پریکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کرسکتا ہے اور اسرائیل امریکی آپشن پر غور کررہا ہے۔یہ ایک نہ کسی کی جیت نہ کسی کی ہار قسم کا معاملہ ہو گا جس میں دونوں فریق مقاصد کے حصول کی توجیہہ پیش کر سکتے ہیں ایران اسے اپنی فتح کے طور پر پیش کرے گا کہ اس نے امریکہ اور اسرائیل کو جھکنے پر مجبور کردیاکہ دوسری جانب، امریکہ اور اسرائیل یہ موقف اختیار کریں گے کہ انہوں نے ایران کے جوہری خطرے کا خاتمہ کر دیا ہے، اس طرح یہ آپشن فریقین کے لیے کشمکش سے نکلنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے، اور خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھنے سے روکنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔دوسری جانب امریکی حملوں اور دعوئوں کے باوجود ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کہ امریکی دعوے مکمل طور پر حقیقت ہیں یا پھر ایرانی دعوے درست ہیں بہرحال اتنی بات ضرور ہے کہ ایٹمی تابکاری کا اخراج نہ ہونے کی تصدیق ہوئی ہے نیز اس امر کا بھی علم نہیں کہ ایران کے پاس دس ایٹمی ہتھیار بنانے کے لئے کافی جو زیادہ افزودہ یورنییم موجود ہے وہ کہاں ہے اگر اس ذخیرے کونشانہ بنایا گیا تھا تو تابکاری کا اخراج کیوں نہ ہوا۔ان تمام امور و عوامل سے قطع نظر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرکے، امریکہ نے ایک طویل اور تباہ کن جنگ کا عمل شروع کر دیا ہے جو پورے عالمی نظام کو جغرافیائی اور اقتصادی طور پر متاثر کرے گی۔دوہرا معیار اس وقت واضح ہوتا ہے جب جوہری ہتھیاروں سے لیس اسرائیل ایک اور طاقت پر جوہری ہتھیاروں کے حصول کا الزام لگاتا ہے۔اگر دنیا میں کوئی ایسی ریاست ہے جس کے بارے میں عالمی برادری کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو پناہ دینے کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے تو وہ اسرائیل ہے جس نے غزہ میں نسل کشی کی ہے اور اپنے تقریبا تمام پڑوسیوں کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔ لیکن مغربی کیمپ میں بہت سے لوگ آسانی سے ایران کی مذمت اور اسرائیل کو گلے لگانے کی منافقت کو نظر انداز کرتے ہیں۔ یہ پوری عالمی برادری کے لیے سنگین خطرے کا لمحہ ہے۔ سب کی نظریں اس بات پر ہیں کہ ایران کب اور کیسے جوابی کارروائی کرتا ہے۔ان حالات میں جبکہ دونوں فریق کسی لچک کے مظاہرے کے لئے آمادہ نظر نہیں آتے ایک سیف ایگزٹ پلان کی اہمیت و ضرورت کا احساس ہوتا ہے ایک خیال یہ بھی ہے کہ ٹرمپ نے اسرائیلی دبائو میں آکر کارروائی تو کروادی اور ایک ہی وقت میں اسرائیلی وزیر اعظم اور روس کے صدر پیوٹن دونوں ہی کا گویا یوں خیال رکھا کہ ایرانی ایٹمی تنصیبات کونشانہ بھی بنایا گیا اور ان کو نقصان بھی نہ ہونے دیا اس بات کو تقویت ایرانی دعوئوں سے ملے یا نہ ملے البتہ تابکاری کا عدم اخراج اس خیال کی تقویت کا باعث ضرور ہے شاید صورتحال ہی ایسی بن گئی تھی کہ امریکہ کے پاس پیچھے ہٹنے کا راستہ نہ تھا اور نہ ہی وہ ایرانی تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے متحمل ہوسکتے تھے کہ اس صورت میں روس ‘ چین اور شمالی کوریا سے ٹکر کی مشکل صورت پیدا ہوتی بہرحال ارضی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے اسرائیلی دبائو پر ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بناکر سفارتکاری کے تمام مواقع کا باب بند کردیا اب یہ ایران پر منحصر ہے کہ وہ مسکت جواب اور مصلحت میں سے کونسا راستہ اختیار کرتی ہے دنیا کا امن اور معیشت دونوں خطرے میں ہیں جس سے دنیا کو بچانے کے لئے اجتماعی عالمی کوششوں کی ضرورت ہے جس میں ہر ملک کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے کوئی قابل قبول راستہ نکال کر جنگ کے بھڑکتے شعلوں کو روک دینے میں حصہ ڈالنا چاہئے جس میں تاخیر کی گنجائش نہیں۔ میدان جنگ کا فیصلہ ہر دو ملکوں کے لئے کوئی آسان راستہ نہیں اس کا ادراک ہر دو ممالک کو ہونا چاہئے۔