اسیر قائدکی منظوری سے بجٹ پیش کرنے کے اعلان سے رجوع کے بعد بجٹ کی منظوری انہی سے ملاقات سے مشروط کا عندیہ اور اب درمیانی راستہ نکالنے کی سعی کسی طور بھی سنجیدہ سیاسی سوچ اور حکومتی معاملات کو بردباری سے چلانے کی حامل رویہ نہیں تازہ رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں30 جون تک بجٹ کی منظوری نہ ہونے کی صورت میں صوبائی حکومت آئین پاکستان کے آرٹیکل125 اور224 کے تحت عارضی انتظامات پر غور کرسکتی ہے جس کے تحت تین ماہ کیلئے محدود بجٹ پیش کیا جاسکتا ہے آئین پاکستان کے آرٹیکل125 کے مطابق صوبائی حکومت ہر مالی سال کا بجٹ صوبائی اسمبلی میں پیش کرتی ہے اگر کسی وجہ سے بجٹ منظور نہ ہو یا اسمبلی کا اجلاس نہ ہو سکے تو صوبائی حکومت کو عوامی خدمات اور انتظامی امور کو جاری رکھنے کیلئے آئینی تحفظ حاصل ہے اگر30 جون تک بجٹ منظور نہ ہو سکے تو صوبائی حکومت عارضی طور پر گزشتہ بجٹ کے اخراجات جاری رکھ سکتی ہے اس صورت میں، تنخواہوں،پنشن اور دیگر ضروری اخراجات کیلئے تین ماہ کیلئے عارضی گرانٹ دی جائے گی اوراگر صوبائی اسمبلی تحلیل ہو جائے یا سیاسی بحران کی وجہ سے بجٹ پاس نہ ہو سکے تو آرٹیکل224 کے تحت گورنر یاصوبائی انتظامیہ عارضی انتظامات کر سکتے ہیںاس میں کریڈٹ کے بغیر محدود اخراجات کی اجازت ہوتی ہے جبکہ صوبائی حکومت وفاق سے مشاورت کے بعد عارضی بجٹ جاری کر سکتی ہے بہرحال اگر بجٹ منظور نہ ہوا تو آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے اس میں گورنر کا بھی کردار ہے اگر سیاسی جماعتیں بجٹ پر متفق نہ ہوں تو گورنر آئین کے تحت مداخلت کر سکتے ہیں اور اگر بجٹ کی عدم منظوری سے صوبے کے کام متاثر ہوں تو عدالت بھی آئین کے تحت احکامات دے سکتی ہے۔محولہ صورتحال او کھلی میں سردینے کے متراف ہو گا جب صوبائی حکومت اپنی داڑھی اپنے ہی ہاتھوں ایسے عہدیدارکے ہاتھ میں دے گی جو جب چاہے کھینچ لے نیز وفاق کو بھی مداخلت کا کھلا راستہ مل سکتا ہے سیاسی فیصلوں میں تبدیلی کو یوٹرن کا نام دے کر جس طرح معیوب بنا دیا گیا ہے وہ اپنی جگہ لیکن جہاں اس کے بناء بات نہ بنے اور بگڑنا اور خرابی واضح ہو تو یوٹرن لے لینی چاہئے وقت صوبائی حکومت کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے بہتر ہو گا کہ عارضی انتظام کی بجائے بجٹ کی منظوری کا راستہ اختیار کیا جائے اور حکومت اور صوبے کو تجربہ گاہ بنانے کے تسلسل سے باز آیا جائے ایسا کوئی عمل نہ دہرایا جائے جو لاحاصل اور باعث خسران ہو۔
