عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

محکمہ صحت اوراس کے معاملات کے حوالے سے ہمارے نمائندے کی تفصیلی رپورٹوں میں اکثر بے قاعدگیوں اور محکمے کی ناقص کارکردگی اجاگر ہونے کے باوجود نہ ہی اصلاح احوال اور نہ ہی احتساب اور قبلہ درست کرنے پرتوجہ سمجھ سے بالاتر امر ہے خواہ جس بھی دور حکومت سے متعلق امور ہوں اصلاح احوال و احتساب جاری حکومت کی ذمہ داری ہے جس سے احتراز حیران کن ہے انڈی پینڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ کی رپورٹ کے مطابق صوبے کے32 بڑے ہسپتالوں میں ادویات کی دستیابی، ڈاکٹرز کی حاضری اور مریضوں کے اعداد و شمار تشویشناک حد تک کم ہیںرپورٹ کے مطابق174ترجیحی ادویات کی دستیابی صوبے کے صرف45فیصد ہسپتالوں میں ہے جبکہ200 بنیادی ادویات کی دستیابی41 فیصد ہسپتالوں تک محدود ہے صرف ایک ہسپتال نے80 فیصد ادویات کی دستیابی پائی گئی ہے اس طرح60اہم طبی آلات میں سے صرف84 فیصد کام کے قابل ہیں اور صرف3 ہسپتالوں نے90 فیصد آلات کی فعالیت کا ہدف حاصل کیا گیاہے رپورٹ میںڈاکٹرز کی غیر حاضری اور مریضوں کے بوجھ سے متعلق نشاندہی بھی کی گئی ہے دوسری جانب محکمہ صحت میں ادویات اور طبی سامان کی خریداری کے دوران چار کمپنیوں نے ایک ارب19 کروڑ روپے سے زائد کی ادائیگی وصول کرنے کے باوجود مقررہ ادویات اور طبی آلات فراہم نہیں کئے جبکہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک سال گزرنے کے بعد بھی محکمے کے افسران نے نہ تو رقم واپس لی اور نہ ہی ان کمپنیوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کی گئی خامیوں خرابیوں اور بدانتظامی کے امکانات غبن وملی بھگت جیسے معاملات سے یکسر پرہیز اور ایمانداری سے فرائض کی انجام دہی فعالیت اورعوام کی خدمت جیسے اوصاف کی تو اب توقع ہی عبث ہے اور یہ قصہ پارینہ بن گئی ہیں افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک جانب حکومت عوام کو صحت کی سہولتوں کی فراہمی اور مفت علاج پر حتی المقدور وسائل مختص کرکے بہتری کے لئے کوشاں ہے مگر عملی طور پر صورتحال محولہ حالات سے واضح ہے جس سے حکومتی مساعی کی عملی نفی ہوتی ہے سارے معاملات حکومت کے سامنے ہیں ایسے میں سوائے اصلاح احوال میں سنجیدگی اختیار کرنے او رکڑے احتساب پر متوجہ ہونے کے کوئی راستہ نظر نہیں آتا جسے اختیار کرنے میں حکومت کو مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے عوام کو ان کا حق وسائل کے شفاف استعمال سے ہی مل سکتا ہے۔