دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے کو گہر ہونے تک

ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنے کے لئے طاغوتی طاقتیں کس قدر کوشاں ہیں وہ سب کے سامنے ہے مزید کیا کچھ دیکھنے کو ملنے والا ہے وہ بھی نہایت تشویش کی بات ہے ایران کی ایٹمی ترجیحات پر حملے کے حوالے سے مستند معلومات شاید ہی کبھی دستیاب ہوں اس سے ہی اندازہ لگالیجئے کہ پاکستان جیسے ملک نے کس قدر جتن کرکے اپنے جوہری پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہوگا۔یہ کس قدرجاں جوکھوں کا کام تھا اندزہ ہی مشکل ہے پاکستان معاشی طور پر کن حالات کا شکار تھا روس کا خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا بھارت جیسا دشمن موقع کی تاک میں تھا جن کو اسرائیل کی پوری معاونت و حمایت اور یہاں تک کہ افرادی و جنگی مدد حاصل تھی امریکہ اور یورپی ممالک پاکستان کو کسی بھی قیمت پر ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے والے ملک کے طور پر دیکھنے کے خواہاں نہ تھے صرف یہی نہیں بلکہ اڑوس پڑوس کے دو اسلامی ممالک بھی دوستوں کی صف میں نہ تھے یوں پاکستان علاقائی اورعالمی سطح پر دشمنوں اور مخالفین میں یوں گھرا ملک تھا کہ جس کا بس چلے پڑیا بنا کر پھانک لے مگر جسے خدا رکھے اسے کون چکھے والا معاملہ تھامختصراً پاکستان سانپ اور سیڑھی کے کھیل میں ہر وقت سانپوں کے منہ میں ہونے کے باوجود بالاخر نقطہ اختتام کو تو جیسے تیسے پہنچ گیا مگر اس تک پہنچتے پہنچتے وجود کا ایک حصہ ہی الگ نہیں ہوا بلکہ مسلسل سازشوں اور دبائو کا شکار بھی رہا ایٹمی دھماکوں کے جواب دینے کا وقت آیا تو معلوم ہوا کہ ہر بار ایٹمی پروگرام کے پرامن مقاصد کا رٹا لگانے والے ملک صلاحیت ہی کا حامل نہیں بلکہ ٹیسٹ کی تیاریاں بھی مکمل تھیں جو نہ صرف کامیاب اور دشمن سے زیادہ طاقتور تھیں بلکہ تعداد بھی ایک زیادہ ابتداء سے چاغی میں کامیاب ٹیسٹ تک پاکستان کو کن کن مشکلات کا سامنا رہا ہوگا اس حوالے سے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم و مغفور نے سلسلہ وار کالموںمیں ایک جھلک دکھا دی تھی باقی ایران کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ ہم کس قدر دشمنوں میں گھرے تھے اور موت و خطرات کے منہ میں ہمیں کن مراحل سے گزرنا پڑا ہو گا کس قدر داخلی حساس مقامات کو خفیہ رکھنے سے لے کر دشمنوں کو چکمہ دے کر منزل مراد کے حصول کے لئے قربانیاں دی گئی ہوں گی اندازہ لگانا ہی مشکل ہے ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کوکسی روایتی تعریفی جملے کی ضرورت ہی نہیں بس ہر پاکستانی کو ان کودعائوں میں ضرور یاد رکھنا چاہئے پاکستان کو ا یٹمی صلاحیت کا حامل ملک بنانے میں کیا کیا جھمیلے جھیلے گئے ذوالفقار علی بھٹو ‘ جنرل ضیاء الحق ‘ ایٹمی پروگرام کے مالیاتی سرپرست غلام اسحق خان ‘ بے نظیر بھٹو ‘
نواز شریف اور ایٹمی سائنسدانوں و ماہرین کی پوری ٹیم اور ان کی قدم قدم پر سیکورٹی کی ذمہ داری نبھانے والے اداروں اور اہلکاروں کے ہزاروں خاموش اور گمنام سپاہی کس کس کی خدمات کا اعتراف کیا جائے کسے یاد کیا جائے کسے نہیں اطمینا کا حامل امر یہ ہے کہ پاکستان کو ایٹمی صلاحیت بنانے میں کسی ایک میں دوبارہ لکھتی ہوں کسی ایک پاکستان کی جانب سے خدانخواستہ عدم احتیاط اور سہو کا مظاہرہ کیا جاتا تو جس طرح ایران کے جوہری سائنس دانوں کو نشانہ بنایا گیا اس سے کہیں بھیانک صورتحال ہمارے ہاں ہونا تھی اندازہ لگائیں کس قدر لمحہ لمحہ کی چوکسی ‘ دیانتداری ‘ احتیاط اور مہارت کا مظاہرہ کیا گیا ہو گامیں جب بھی اپنے ملک میں ا نتشار دیکھتی ہوں دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں مشوش ضرور ہوتی ہوں مگر گھبراتی نہیں مایوس نہیں ہوتی بلکہ ان واقعات کو میں قدرت کی طرف سے مثبت خیال کرتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ اگر ان حالات اور مشکلات کا ہمیں بظاہر سامنا نہ ہوتا معاشی حالات کی ابتری سے لے کر امن و امان سیاسی انتشار اور ملکی عدم استحکام کے یہ منظر نامے کے خطرات پیش منظر نہ
ہوتے تو دشمنوں کوپس منظر کا سوچنے اور اس تک پہنچنے میں یکسوئی ہوتی اور آج منظر خدانخواستہ مختلف ہوتا پیش منظر میں کچھ اور پس منظر میں کچھ ذرا سوچیں تصور کریں تو قدرت کی مصلحت کے خود بخود قائل ہو جائیں گے یہ جو معاشی صورتحال اور بدترین بدعنوانی کی کہانیاں ہیں ہوں گی لیکن اتنی بھی اندھیر نگری نہیں کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔بہت عرصے سے ایک کہانی میرے علم میں تھی کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ بیان کروں لیکن جاری صورتحال اور خاص طور پر بھارت سے پنجہ آزمائی میں سامنے آنے والی پاکستان کی صلاحیتوں سے اس کی تصدیق ہونے کے بعد اب یہ قومی راز کے زمرے میں شمار نہیں ہوتا ۔قابل اعتماد راوی کا بیان ہے کہ 80کی دہائی سے ان کے اے کیو خان لیبارٹری کہوٹہ کے ڈاکٹر قدیر خان کے دست راست شخصیت کے سسرالی گھرانے سے قریبی جان پہچان ہے محولہ شخصیت سے تو ان کی براہ راست ملاقات نہیں مگرباقی سب سے جان پہچان ہے ڈاکٹر قدیر خان ریسرچ لیبارٹریز کے اس مایہ ناز ہنرمند کو جب خاندان والوں کے اصرار اورکچھ بتانے کے دبائو کا سامنا ہوااور کوئی جملہ کہے بہیر نجات کی صورت نہ رہی تو موصوف نے صرف اتنا کہا ”آپ لوگ ایٹم بنانے کی بات کرتے ہیں پاکستان بہت کچھ بنا چکا ہے”جملے کا عقدہ اب جا کے کھلا اب دنیا معترف بھی ہے اور انگشت بدنداں بھی کہ پاکستان کس قدر طاقت و صلاحیت کے حامل ملک کے طور پر ابھرا۔
دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے کو گہر ہونے تک

مزید پڑھیں:  اے بسا آرزو کہ خاک شد