ایران اسرائیل جنگ بندی

ایران اسرائیل جنگ بالآخر نہ کسی کی جیت نہ کسی کی ہار قسم کے حالات میں ختم ہوگئی اس دوران جہاں ایران کو اپنی حربی صلاحیتوں کو میدان جنگ میں آزمانے کا موقع ملا وہاں اسرائیل کا سہ تہی دفاعی حصار ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور اس کے شہریوں کو پہلی مرتبہ اس امر کا عملی احساس ہوا کہ اسرائیل کا دفاع اور اس کی صلاحیتیں ناقابل تسخیر نہیں مختصر مدت میں ایک جانب جہاں بھارت کی طاقت کا غرور پاکستان کے ہاتھوں پاش پاش ہوا وہاں ایران امریکہ اور اسرائیل کے لئے لوہے کا چنا ثابت ہوا اسلامی ممالک کی روایتی بے حسی میں قدرے کمی آنا بھی امیدکی کرن ہے ان دو جنگوں کے بعد اب دنیا میں جنگی نظریات میں تبدیلی اور طاقتور و کمزور پر وسائل اور بے وسیلگی جیسے عوامل کی اہمیت میں بھی خاصی کمی آنا فطری امر ہے ۔ جہاں تک اسرائیل کی ایران کے خلاف جارحیت اور امریکہ کے کردار کا تعلق ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے واضح ہے کہ ہر دو ممالک کو لاحاصل مساعی کے بعد حصول مقصد میں کامیابی نہ مل سکی نہ حکومت کی تبدیلی ہوئی او رنہ ہی ایرانی عوام میں حکومت اور قیادت کے حوالے سے سوچ بدلی بلکہ الٹا بلکہ ایران نے ایسی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا جس کے بعد خطے میں اب اسرائیل کی تھانیداری ہی خطرے میں پڑ گئی ایران کے ایٹمی پروگرام کو بھی قابل ذکر نقصان نہ پہنچایا جا سکا اب ایران ممکنہ طور پر خفیہ طور پر اسے نہ صرف جاری رکھے گا بلکہ اس کی تکمیل میں شاید اس کو بعض ممالک کی طرف سے ممکنہ طور پر مدد بھی ملے ۔ایران پر حملہ کے بعد پاکستان کی سرحدوں پر خطرات کے جو بادل تھے ایران نے ان کو بہت دور دھکیلا نیز پاکستان کی مدد و تعاون پر ایرانی پارلیمان میں جس طرح تشکر پاکستان تشکر پاکستان کا نعرہ لگایا گیا اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت ہی تبدیل ہوگئی اس جنگ میں بھارت کا کردار و عمل اور را کی موساد کو سہولت کاری اور را کے جامے میں موساد کے ایجنٹوں کی ایران کے اندر بچھائے جال اور اس سے بطور خاص ایرانی عسکری قیادت اور ایٹمی سائنسدانوں پرحملے سامنے آئے اس کے بعد چاہ بہار سے لیکر بلوچستان کی سرحد پر اب صورتحال پہلے کے برعکس ہونا فطری امر ہو گا دونوں ہمسایہ ممالک میں عدم اعتماد اور رقابت کی جو لہر تھی اب اس لہر کو نہ صرف ختم ہو جانا چاہئے بلکہ اب پاکستان اور ایران کو اپنے مشترکہ دشمن بھارت اور اسرائیل کے پائوں اکھاڑنے کے حامل مشترکہ اقدامات کا فیصلہ کر لینا چاہئے ۔ مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک کوبھی اپنی پالیسیوں اور خطے کے ممالک کے حوالے سے اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے چونکہ اب اسرائیلی دفاع اور حربی صلاحیتوں کا پول کھل چکا ہے ایسے میں ہمسایہ ممالک کو اب اس دبائو کا سامنا نہیں ہونا چاہئے جس کا وہ پہلے سے شکار تھے موقع ہے کہ وہ اسرئیلی اور امریکی دبائو سے نکلنے کی راہ اپنائیں جن امریکی اڈوں کو عرب ممالک اپنا دفاعی حصار سمجھتے تھے اب ثابت ہو گیا کہ جب ایران کی جانب سے ان اڈوں کونشانہ بنانے کی باری آئی تو امریکی صدرٹرمپ نے بھی ایران سے جنگ بندی ہی کو محفوظ راستہ جانا ایسے میں ان ممالک کے شہریوں کے تحفظ کے مقابلے میں امریکی اپنے اڈوں ہی کو خالی کرنے پر آئے یہ وہ ساری صورتحال ہے جس کے بعد عالمی طور پر پالیسیوں میں تبدیلی اور ترجیحات میں ردوبدل کی توقع ہے امریکہ کے مقابلے میں اب دنیا کے دیگر طاقتور ممالک کی سوچ اور پالسیوں میں واضح تبدیلی نظر آنا شروع ہو گئی ہے ایسے میں امت مسلمہ کو بھی روایتی خول کو ہٹا کر نئی دنیا میں اپنی ترجیحات اور پالیسیوں پر اسلام موافق ترجیحات اور رجحانات کو اجاگر کرنے پر توجہ دینی چاہئے اور خوف کا خول توڑ دینا چاہئے ایران اور اسرائیل کی جنگ میں کس ملک کا حقیقی نقصان کتنا ہوا اس حوالے سے اب مستند معلومات کا سلسلہ شروع ہوگا البتہ ایران کے مقابلے میں اسرائیل کا کم نقصان بھی صیہونیوں کے لئے ناقابل برداشت ہوگا بجائے اس کے کہ ایران میں حکومت اور قیادت کی تبدیلی ہو ایسا نظر آتا ہے کہ صیہونی نیتن یاہو ہی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔امریکہ صیہونی ریاست نے ایران سے جو جنگ چھیڑی وہ ان کے مقاصد کی ناکامی کے ساتھ خودان کی جانب سے جنگ بندی پر بغیر مقاصد کے حصول کے اختتام کی منزل پر ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اب خطے کے امن کی بحالی اور استحکام کے لئے سبھی کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور کسی فریق کو یہ موقع نہ دیا جائے کہ وہ جب چاہیں عالمی امن سے کھلواڑ کرسکے۔

مزید پڑھیں:  امید کی کرن