صوبہ خیبرپختونخوا کے سالانہ بجٹ کی منظوری کے حوالے سے گزشتہ کچھ دنوں سے وزیر اعلیٰ سے لے کر دیگر متعلقہ حلقوں کے مابین ہونے والی بیان بازی اور بجٹ کو بغیربانی تحریک کی رضا مندی (جس میں ان کے ساتھ وزیر اعلیٰ کی ملاقات کی شرط بھی عاید تھی) پاس نہ ہونے دینے کی دھمکیوں کے باوجودبجٹ کی منظوری صوبے کو معاشی ایمرجنسی سے نکالنے کے لئے ناگزیر خیال کرنے کی گنجائش موجود ہے جسے تنازعہ کا باعث نہیں بننا چاہئے سپیکر کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کے ممبران کی جانب سے کٹوتیوں کو مسترد کرکے پاس کیاگیا اس حوالے سے تحریک انصاف کے حلقوں اس حوالے متضاد آراء پائی جاتی ہیں تاہم ہماری دانست میں رد و قدح کی اس صورتحال کے باوجود بجٹ کی منظوری صوبے کے مفاد میں ہے کیونکہ 30 جون تک بہر صورت آئندہ مالی سال کے میزانئے کی اسمبلی سے منظوری آئینی تقاضا ہے اور خدانخواستہ کبھی ایسی کسی صورتحال کا سامنا ہوتو وفاق کو صوبے میں مالی ایمرجنسی لگا کر کم از کم تین ماہ کے لئے صوبائی اخراجات کی منظوری لازمی ہو جاتی ہے اور جب سے صوبائی بجٹ کی منظوری کے حوالے سے سامنے آنے والی متضاد اطلاعات کا تعلق ہے تو واقفان حال ‘ آئینی ماہرین ‘ سیاسی رہنماء اور تجزیہ کار اسی جانب اشارے کرتے دکھائی دے رہے تھے جس کی وجہ سے خود صوبائی حکومت اور برسراقتدار پارٹی کے اندر بھی تشویش پائی جارہی تھی جبکہ اب جودعوے سامنے آرہے ہیں ان کے مطابق صوبائی بجٹ کی منظوری بانی تحریک کی مرضی و منشاء کے مطابق ہوئی ہے مگر خود بانی تحریک کا جوبیان اخبارات کی زینت بنا ہے اس کے مطابق ”میری مشاورت کے بغیر بجٹ منظور نہیں ہونا چاہئے تھا ” جبکہ بانی تحریک کی ہمشیرہ محترمہ علیمہ خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں جوالفاظ ادا کئے ہیں وہ پارٹی کے حلقوں کے لئے خاصے تشویشناک ہونا فطری امر ہے ۔یہ صورتحال نظربہ ظاہر تو پارٹی کے کارکنوں کے لئے حوصلہ افزاء نہیں ہے اور سوشل میڈیا پرخود پارٹی کے کارکنوں کی جانب سے اعتراضات کا ایک طوفان اٹھ رہا ہے کارکنوں کے جذبات اپنی جگہ تاہم پارٹی کے جن حلقوں نے بجٹ پاس کرنے میں کردار ادا کیا ہے انہوں نے نہ صرف آئین کی پاسداری کی ہے بلکہ پارٹی کونقصان سے بچانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ہمارے تئیں جذبات کا طوفان جب تھم جائے تو جذباتی کارکنوں کو آئندہ آنے والے دنوں میں اس فیصلے کی افادیت کا نہ صرف احساس ہوگا بلکہ وہ بھی اسے درست فیصلہ قراربھی دیں گے۔
