4 117

خان گیڈائی مرحوم کی باتیں اور270ارب کی کرپشن

خان گیڈائی مرحوم ہمارے خدی علاقے کے مشہور مزاحیہ کردار گزرے ہیں ۔ ان کی بہت ساری باتیں اج بھی لوگوں کو زبانی یاد ہیں اور دہراتے رہتے ہیں۔ ایک دفعہ رمضان کے مہینے میں گڑ کا ایک ڈیلا کھایا تو کسی نے انہیں یاد دلا یا کہ خان گیڈائی کیا آپ کا روزہ نہیں ہے تو انہوں نے کہا کہ بے شک میرا روزہ ہے کیوں نہیں کیا آپ کو میں مسلمان نہیں لگتا؟ تو اس آدمی نے کہا کہ ابھی تو آپ نے گڑ کھا لیا اور کہتے ہو کہ روزہ بھی ہے۔ تو خان گیڈائی نے برجستہ جواب دیا کہ یار ایک ہی تو ڈیلا کھایا ہے میں نے کونسا گڑ سے بھرا ہوا پورا ٹرک کھا لیا ہے۔
ویسے کچھ لوگ سال2019-20 کے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ایک رپورٹ میں موجودہ حکومت کی270ارب روپے کی کرپشن پر ایسے سیخ پا ہیں کہ جیسے اسی حکومت نے پورا بجٹ ہی کھا لیا ہو۔ عوام کے غصے کا کیا ہے یہ تو پیٹرول کے نرخ 26روپے بڑھنے پر بھی غصہ ہو جاتے ہیں۔ یہی عوام آٹے کی بیس کلو بوری کے نرخ اگر300روپے بڑھ جائے تو زمین وآسمان ایک کر دیتے ہیں حالانکہ ان کو سوچنا چاہئے کہ اسی حکومت میں کتنے ”کرپٹ” لوگوں کو دبایا گیا۔ یہی حکومت ہے جس نے شوگر مافیا اور آٹا مافیا کے سرغنوں کو بے نقاب کرکے انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ کچھ تو مثبت بھی سوچیں، ہمارے وزیراعظم صاحب دنیا کے واحد وزیراعظم ہیں جو بغیر پرچی کے تقریر کرتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ دنیا میں پاکستان کی عزت اور ہاں پاکستانی پاسپورٹ کی عزت کیا سویٹزرلینڈ کے پاسپورٹ سے زیادہ نہیں ہوا؟ یہ احسان ناشناس لوگ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ہمارا وزیراعظم کتنا ہینڈسم ہے، ستر سال سے زائد کی عمر میں بھی کتنے چست وتوانا رہتے ہیں، کچھ تو مثبت بھی سوچ لیجئے۔ کیا ملکی کابینہ میں فواد چوہدری اور زرتاج گل جیسی پہنچی ہوئی ہستیاں پہلے کبھی دیکھی ہیں؟ کیا اس سے پہلے علی امین گنڈہ پور جیسی مونچھیں اور درازئی زلف کسی اور کے دیکھے ہیں؟ اس ملک کے احسان فراموش عوام فیاض چوہان کی کھری کھری باتوں کو بھی فراموش کر دیتے ہیں اور ان سب کو چھوڑ دیجئے، خان صاحب نے جو 1992میں آپ جیسی نالائق لوگوں کیلئے ورلڈ کپ بھی تو جیتا تھا۔ کیوں بھول جاتے ہو ان سب احسانات کو اور ایک مہنگائی کو پکڑ کے روتے رہتے ہو۔ کچھ تو مثبت بھی سوچ لیا کریں۔ کسی کا باپ55روپے فی کلومیٹر میں ہیلی کاپٹر اُڑا سکتا ہے؟ اور پھر اسد عمر کو کیوں بھول گئے جنہوں نے آپ سے45 روپے فی لیٹر پیٹرول کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا۔ ان کو کچھ ٹائم دو تاکہ سب کچھ ختم کرکے نئے سرے سے ایک نیا پاکستان آپ کیلئے قائم کرے جس میں خان صاحب اور اس کے حواریوں کا ایک ایک وعدہ پورا ہوگا۔ بے صبری کا مظاہرہ مت کیجئے گا، آرام سے سب کچھ ہو جائیگا اور اگر آپ لوگوں کو یہیں پہ آرام میسر نہیں تو خان صاحب نے آرام کیلئے بھی تو جگہ بتائی ہے، آپ وہاں کیوں نہیں جاتے یہاں مستقل طور پر ڈیرے ڈالئے ہوئے ہو۔ حرکت کرو قبر کا عیش وآرام آپ کو پکار رہا ہے۔ اپ اتنے بے صبرے ہو کہ مراد سعید کے دو سو ارب ڈالر کا انتطار بھی آپ لوگوں سے نہیں ہو سکتا جس میں دو سو ارب ڈالر آئی ایم ایف کے منہ پر دے مارے گا اور دو سو آپ لوگوں پر خرچ ہوگا۔ اس میں اگر 270ارب ادھر ادھر ہوگئے تو کیا ہوا، دو سو ارب ڈالر کو پاکستانی روپیوں میں ضرب دیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ270ارب تو کچھ بھی نہیں بلکہ آپ خود انہیں اجازت دیدیں کہ کچھ اور لو جی کیونکہ اتنی فروانی تو روپے پیسے کی کبھی تھی ہی نہیں اس ملک میں۔ موجودہ حکومت کا یہ کارنامہ کیا کم ہے کہ کرونا جیسی وبا کے دنوں میں بھی آپ کے بچوں کیلئے آن لائن تعلیم کا انتطام کیا ہے اور پورے ملک میں بچے بڑی بڑی سکرینوں کے سامنے بیٹھے درس وتدریس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ آپ لوگوں کی ناشکری کا علاج لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں حالانکہ آپ کا ملک تاریخ میں پہلی بار بغیر قرضوں کے چل رہا ہے۔ اپنے وسائل سے ملک کو کوئی اور چلا کر دکھائیں تو ہم مان لیں گے۔ آخری بات یہ کہ محترم خان صاحب نے کل ایک عیشائیے میں تقریر کرتے ہوئے واضح طور پر اعلان کیا کہ ان کے سوا کوئی دوسرا آپشن ہے ہی نہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب کوئی دوسرا آپشن ہے نہیں تو خان صاحب کا تو آپ لوگوں کو شکر گزار ہونا چاہئے کہ ان حالات میں وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آپ کی خدمت عالیہ میں شب وروز مگن ہیں۔ خدا نخواستہ اگر خان صاحب اس ملک کو چلانے سے انکار کریں تو؟ کیا آپ کے پاس کوئی آپشن ہے، اگر نہیں تو کم ازکم احسان مند تو رہئے جی۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں