مشرق وسطی کا لرزتا ہوا امن

مشرق وسطی میں 1948، 1956، 1967 اور 1973 کی عرب اسرائیل جنگوں کے بعد پہلی اسرائیل۔ ایران 12 روزہ جنگ 13 جون کو شروع ہو کر 25 جون کو جنگ بندی کے نتیجے میں اپنے اختتام پر آئی۔ یہ جنگ شاید مزید آگے بڑھتی یہاں تک کہ ام الحرب میں تبدیل ہو سکتی تھی لیکن امن کے نام پر بدترین فوجی طاقت استعمال کر کے امریکیوں نے 21 جون کو ایران کی ایٹمی تنصیبات کو اپنے خود ساختہ دعووں کے مطابق ادھیڑ کر رکھ دیا جس کا فوری فوجی نتیجہ اس اسرائیل ایران جنگ میں 25 جون کی عارضی فائر بندی ہے جس پر تا حال لڑائی میں کامیابی کے متضاد دعووں کے باوجود عمل درآمد جاری ہے۔ مشرق وسطی میں اسرائیل کی جانب سے مختلف وقفوں میں شروع کی جانے والی لڑائیوں میں بشمول لبنان 1982 اور 2006 اور حماس اسرائیل کی لڑائی 7 اکتوبر 2023 تا حال جاری ان لڑائیوں میں اسرائیل کی 77 سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ جب ریاست متحدہ ہائے متحدہ امریکہ کے کسی صدر نے اسرائیل کی حمایت میں اپنے ملک کو براہ راست کسی فوجی کارروائی میں ملوث کیا ہو ابھی اس بارہ روزہ لڑائی کی تفصیلات مسلسل آ رہی ہیں اور صورتحال بہت زیادہ واضح نہیں ہے۔لڑائی کی ابتداہی سے اسرائیل کے دو بڑے مقاصد تھے۔ ایک ایران کی ایٹمی صلاحیت کو تباہ کرنا اور دوسرا ایران کی بلسٹک میزائل اور ڈرونز بنانے کی فوجی صلاحیت کو اکھاڑ پھینکنا۔ لیکن اس لڑائی کی ابتدا کے پہلے ہی ہفتے میں ایک تیسرا بڑا مقصد بھی جنگ کے مقاصد میں شامل ہو گیا تھا جس نے اسرائیل کے باقی دو مقاصد کو پیچھے کر دیا اور وہ ایران میں موجودہ اسلامی حکومت کا خاتمہ تھا جس کے سربراہ ایران کے موجودہ لیڈر سید علی خامنائی ہیں۔ تقریبا یہی مقاصد امریکیوں کے بھی تھے جو اسرائیل کی حمایت میں مسلسل بیانات دے رہے تھے لیکن فرق صرف یہ ہے کہ 24 جون کو جنگ بندی کے بعد صدر ٹرمپ نے ایران میں حکومتی نظام اور حکومتی حکام کی تبدیلی کو امریکہ کے مقاصد سے باہر نکال دیا جس کے تحت ایران پر امریکہ نے 21- 22 جون کی درمیانی شب تقریبا ڈیڑھ بجے آپریشن مڈ نائٹ ھیمر کا آغاز کیا تھا اور ایران کی ایٹمی تنصیبات پر انتہائی شدید تباہی پھیلانے والے بم اور میزائل برسا کر صبح دو بجکر تیس منٹ پر یہ آپریشن مکمل کیا۔ اس آپریشن کے بعد کامیابی کے دعووں کے ساتھ صدر ٹرمپ نے اس کا مقصد صرف ایران کی ایٹمی صلاحیت کو ختم کرنے تک محدود کر دیا۔ دوسری جانب اسرائیل بھی یہ دعوی کر رہا ہے کہ اس نے جن فوجی مقاصد کے تحت آپریشن رائزنگ لائن کو شروع کیا تھا وہ اس نے حاصل کر لیے ہیں لیکن ایرانی حکومت اور نظام کو تبدیل کرنے کا اسرائیلی خواب پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا ہے کیونکہ یہ ایک سیاسی مقصد زیادہ اور فوجی مقصد کم تھا۔ امریکی آپریشن مڈ نائٹ ھیمر کے فوری بعد 23 جون کو ایران کے معیاری وقت کے مطابق سات بجے شام کو ایران نے قطر میں موجود امریکہ کے سب سے بڑے فوجی اڈے پر 19 میزائل فائر کیے اس کے خیال یہ کیا جارہا تھا کہ شاید مشرق وسطی میں 13 جون کو شروع ہونے والی ایران اسرائیل جنگ اب اس پورے خطے کو اپنے لپیٹ میں لے لے گی لیکن حیرت انگیز طور پر ایسا نہیں ہوا اور 24 جون کو صدر ٹرمپ نے اعلان کر دیا کہ اسرائیل اور ایران جنگ بندی پر رضامند ہیں اور اب تک یہ جنگ بندی کسی نہ کسی شکل میں قائم ہے۔ اس تمام پس منظر میں اگر اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ اس پہلی اسرائیل ایران جنگ میں قطع نظر چار عرب اسرائیل جنگوں کے کس کو اپنے مقاصد میں کامیابی ہوئی تو صورتحال بہت زیادہ واضح نظر نہیں آتی ہے۔ اب تک یہ بات بہت واضح ہے کہ اسرائیل اس جنگ میں نہ صرف سیاسی بلکہ کوئی بڑا فوجی مقصد بھی حاصل نہیں کر سکا اگرچہ اسرائیل کو ایران پر مکمل فضائی برتری حاصل تھی اور اس کے باوجود وہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کے ارد گرد تو بمباری کرتا رہا لیکن ایران کے جو بنیادی ایٹمی ڈھانچے تھے جو کہ ناتانز، فور دو اور اصفہان میں موجود تھے یہ آخر تک محفوظ تھے یہاں تک کہ امریکیوں نے آپریشن مڈ نائٹ ھیمر کا اغاز کیا ۔ایران کی ایٹمی تنصیبات کی تباہی کے بارے میں متضاد اطلاعات آ رہی ہیں امریکہ کے محکمہ دفاع کے تحت کام کرنے والی نیشنل ڈیفنس ایجنسی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ایران کے زیادہ تر بنیادی ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں اور امریکی حملے کے نتیجے میں یہ تباہی سے دوچار نہیں ہو سکے ہیں دوسری جانب سی ائی اے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران کے ایٹمی اثاثہ جات بدترین تباہی کا شکار ہوئے ہیں اور ایران ایٹمی صلاحیت کے حصول سے کئی برس پیچھے چلا گیا ہے۔ تیسری جانب بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ نے بھی اس بات کی کس حد تک تصدیق کی ہے کہ ابھی ایران کے ایٹمی اثاثوں کی تباہی کا تخمینہ لگانا ممکن نہیں ہے کیونکہ ایران نے ابھی تک ایٹمی تنصیبات کی حملے کے بعد معائنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ امریکی پریس کی اطلاعات کے مطابق بہت بھاری مقدار میں افزود شدہ یورینیم کو امریکی حملے سے پہلے ہی کسی محفوظ مقام پر پہنچا دیا گیا تھا۔ کیا اس یورینیم کو دوبارہ استعمال کرنا ممکن بھی ہوگا؟ اس بارے میں ابھی کوئی ایکسپرٹ رائے نہیں آئی ہے ۔اس مسئلے کا ایک حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کی اپیل کو ایران اور اسرائیل دونوں نے قبول کیا ہے اگرچہ اس بارے میں جنگ بندی کی ابتدائی کچھ گھنٹوں میں بہت زیادہ خلاف ورزی بھی ہوئی لیکن 25 جون کے بعد سے مکمل طور پر جنگ بندی جاری ہے اور ابھی تک یہ بات بالکل واضح نہیں ہو سکی کہ مڈل ایسٹ میں اس وقت امریکہ کے 40 ہزار سے زیادہ فوجی موجود ہیں اس کے علاوہ 19 فوجی اڈے ہیں جن میں سے اٹھ باقاعدہ طور پر مختلف کاروائیوں میں اور سرگرمیوں میں مصروف ہیں اس کے باوجود ایران کی جانب سے امریکی حملے کے جواب میں کوئی مزید کاروائی نہیں کی گئی ہے ۔ یہ بات بھی قریب القیاس ہو سکتی ہے کہ ایران کی تین اٹامک سائٹس کو امریکی بمباری کے نتیجے میں بہت شدید نقصان پہنچا ہے اور سی آی اے کی تفصیلی تجزیے کی امریکی رپورٹ ہے درست ہے کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بہت برسوں پیچھے چلا گیا ہے اب تک ہونے والی اس پیشرفت میں کچھ چیزیں اور سامنے ا رہی ہیں جن میں پہلی تو یہ ہے کہ اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اگرچہ فوجی برتری اسرائیل نے ثابت کر دی ہے اسرائیل کی فوج کی اپنی اطلاعات کے مطابق ابھی بھی ایران کے پاس بلاسٹک میزائلز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو کہ ایک ہزار سے 1500 تک ہے اور اس کے علاوہ 100 میزائل لانچرز بھی موجود ہیں تو سوال یہ ہے کہ اگر اسرائیل کے مقاصد میں اس صلاحیت کو بھی ختم کرنا تھا تو ایسا کیوں نہیں ہوا اور جہاں تک ایران میں حکومت نظام کی تبدیلی کی بات ہے تو وہ ایک سیاسی مقصد تھا جس میں ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ہوئی اس کے برعکس امریکی صدر ٹرمپ بہت زیادہ پراعتماد نظر آتے ہیں کہ انہوں نے نہ صرف ایران کے ایٹمی پروگرام کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے بلکہ وہ دو بدترین دشمنوں کے مابین میڈل ایسٹ میں فائر بندی کرانے میں کامیاب رہے ہیں اور وہ شاید اپنی خواہش کے مطابق اس فائر بندی کو اور پاکستان اور ہندوستان کے مابین فائر بندی کو اور اپنی نام و نہاد امن کی کوششوں کو جو کہ روس اور یوکرائن کے مابین ہو رہی ہیں ان تمام کو امن کے نوبل کے حصول کے لیے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایران کو دیکھا جائے تو ایران اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے علاوہ کچھ نہ کر سکا ایران کے جتنے مضبوط بازو مڈل ایسٹ میں تھے جو کہ حزب اللہ۔ حماس اور خلیج میں حوثیوں کی شکل میں ہیں یا عراق میں ایران کی نظریاتی طور پر اتفاق رائے رکھنے والی مختلف ملیشیا دستوں کے پاس ہیں وہ مکمل طور پر نہ سہی لیکن کافی حد تک کٹ چکے ہیں ۔ ایران کی ماضی کی کچھ پالیسیوں کی وجہ سے عرب ممالک ایران سے کچھ ناراض بھی تھے دوستی کے باوجود وہ تاریخی ناراضگی دور نہ ہو سکی ہے جس کا فائدہ آنے والے دنوں میں امریکی صدر ٹرمپ حاصل کرنا چاہتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ آنے والے کچھ ماہ میں لبنان اور شام ابراھام معاہدہ کے اندر آ جائیں اور اسرائیل کو سفارتی طور پر تسلیم کر لیں جو کہ صدر ٹرمپ کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی اور پھر شاید امن کا نوبل انہیں سر پہ سجانے سے کوئی نہ روک سکے۔حالات کچھ اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ اس جنگ کے بعد اسرائیل اور ایران کے مابین بہت جلد تو کوئی مفاہمت ممکن نہ ہوگی لیکن ایران یقینی طور پر اپنی کچھ پالیسیوں میں تبدیلی لائے گا اس کی وجہ انتہائی بدترین معاشی صورتحال میں جنگ کا لڑنا اور معاشی طور پر ایران کا مزید پیچھے چلا جانا ہے ہو سکتا ہے کہ آنے والے کچھ سالوں میں ایران کی حکومت کی توجہ صرف اور صرف اپنی معیشت کی بحالی پر ہو –

مزید پڑھیں:  ٹیکس اقدامات کے خلاف تاجروں کا ایکا