غزہ کا مستقبل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے غزہ میں جاری جنگ اگلے دو ہفتوں میں ختم کرنے کے لیے ایک مشترکہ منصوبے پر اتفاق کر لیا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق، اس منصوبہ کے تحت خطے میں وسیع تبدیلیاں متوقع ہیں۔ منصوبے کی اہم شقیں یہ ہیں غزہ کی حکمرانی حماس سے لے کر متحدہ عرب امارات، مصر اور دو دیگر عرب ممالک کے حوالے کی جائے گی۔حماس کے رہنمائوں کو جلا وطن کر دیا جائے گا اور تمام یرغمالیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ ابراہیمی معاہدوں کے دائرہ کار کو وسعت دی جائے گی جس کے تحت سعودی عرب اور شام اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کریں گے بعد میں دیگر عرب ممالک بھی اس عمل میں شامل ہوں گے۔ اسرائیل ایک مشروط دو ریاستی حل کی حمایت کرے گا جس میں سکیورٹی خدشات کو مدنظر رکھا جائے گا۔ اس کے بدلے میںامریکہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر اسرائیلی خود مختاری کو تسلیم کرے گا۔ یہ منصوبہ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی قیادت میں ایک بڑے علاقائی امن اقدام کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے تاہم اس کی عملداری میں فلسطینی جماعتوں اور دیگر علاقائی طاقتوں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ غزہ پٹی میں امداد کی ترسیل میں اسرائیل کی جانب سے پیدا کی جانے والی رکاوٹ کی وجہ سے صورتحال سنگین ہوتی جارہی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے امداد کو روکنے کا مقصد فلسطینیوں کو بھوک میں مبتلا کرنے کا مقصد انہیں جبری نقل مکانی پر مجبور کرنا ہے اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے روزانہ گھروں کی تباہی اور خون ریزی کے سبب 20 لاکھ سے زائد فلسطینی محفوظ پناہ گاہوں سے محروم ہو چکے ہیں۔مسلم ممالک اس ساری صورتحال میں عضو معطل اوربے حسی کا شکار ہیں جس کے مقابلے میں غیر مسلم ممالک اور مسلمانوں کے مقابلے میں بعض غیر مسلم شہریوں کے ا قدامات جرات مندانہ ہے جن کی جانب سے امدادی کشتی لے کر غزہ پہنچنے کی کوشش سے لے کر بڑے بڑے مظاہرے کئے گئے اب غزہ میں وحشیانہ اسرائیلی مظالم پر یورپی یونین سے اسرائیل کے ساتھ تعاون کا معاہدہ معطل کرنے کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق، اسپین کے وزیرِاعظم پیدرو سانچیز نے کہا ہے کہ غزہ نسل کشی کی تباہ کن صورتحال سے دوچار ہے، انہوں نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اسرائیل کے ساتھ تعاون کے معاہدے کو معطل کرے۔ایک بات طے ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کسی طور بھی غزہ کے کھنڈرات پر بھی فلسطینیوں کی بحالی اور بطور خاص حماس کو کنٹرول دینے کا خطرہ مول لینے پر تیار نہیں جو ان کے خوف اور راک میں دبی ہوئی چنگاری کے پھر سے شعلہ جوالا بننے کے خطرے کے طور پر صورتحال کو دیکھنے کا مظہر ہے اس خوف کو بلاوجہ اس لئے قرار نہیں دیا جا سکتا کہ جس طرح حماس کے مجاہدین نے اسرائیل کے آئے روز کے مظالم سے تنگ آکر مزاحمت کا فیصلہ کیا اور جس طرح انہوں نے سب کچھ قربان کرکے اسرائیل اور عرب ممالک کے ممکنہ تعاون کے معاہدوں اور خطے میں تبدیلی کی ان کی چالوں کو ناکام بنایا بعید نہیں کہ آئندہ بھی اسرائیل اور امریکہ کو اس طرح کی کسی ممکنہ صورتحال کاسامنا ہو بظاہر تو غزہ کھنڈر بن چکا ہاور اہل غزہ یا تو بمباری کا شکار ہو کر پیوند خاک ہو گئے یا پھر زندہ درگور ہیں لیکن آج بھی ان کا عزم اور جذبہ شہادت ترو تازہ اور جواں ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل سسکتے لوگوں سے بھی خائف ہے او ان کے علاقے کا انتظام دوسرے ممالک کو حوالے کرکے غزہ پر بالواسطہ قبضہ کی راہ ہموار کرنے کی تجویز پیش نظر رکھے ہوئے ہیں جو علاقے میں بالواسطہ قابض ہونے کی بناء پر ان ممالک کے خلاف بھی ایک اور مزاحمتی عمل شروع کرنے کی سازش ہے اس اقدام کا مقصد اسرائیل کو ایک اور ڈھال فراہم کرنے کے مترادف ہے اگر اس خطرناک منصوبے پر عمل کیا گیا تو پھر محولہ منصوبے میں شریک ممالک کو سخت ردعمل کا سامنا ہو سکتا ہے خانہ جنگی کی یہ صورت اسرائیل ہی کا تحفظ اور ان کا مفاد ہو گا جس سے عرب ممالک کو احتراز کرنا چاہئے حماس ہی غزہ کا وارث ہے اور نہ صرف اسے اس کا ورثہ لوٹانا چاہئے بلکہ دنیا غزہ کی آباد کاری میں بھی حصہ ڈالے اور مظلوم فلسطینیوں کی دوبارہ آباد کاری کا عمل شروع کیا جائے ۔7اکتوبر2023کے بعد جب سے اسرائیل نے غزہ پر حملہ شروع کیا ہے، صیہونی حکومت کی جارحیت اور بربریت کی وجہ سے امن کے تمام امکانات ختم ہونے کے ساتھ ہی کئی جھوٹی امیدیں پیدا ہوئی ہیں۔ اب ان امیدوں پر عملی طور پر پیشرفت کا انتظار ہے۔ ایران ‘اسرائیل جنگ بندی سے یہ بات بخوبی طور پر واضح ہو گئی کہ جب امریکہ آمادگی کا اظہار کرتا ہے تو اسرائیل کے لیے انکار کرنامشکل ہو جاتا ہے۔اب بھوک سے مرنے اور فلسطینی بچوں پر مظالم رکوانے پر خصوصی توجہ ہونا چاہئے یہ صورتحال خوابیدہ عالمی ضمیر کو جگانے کے لئے کافی سے زیادہ ہے ظلم و تعدی کی انتہا ہو گئی یہ ظلم اب ختم ہونا چاہئے۔ کوشش ہونی چاہئے کہ طویل مدتی جنگ بندی کے نافذ العمل ہونے کے بعد تل ابیب میں مقبوضہ علاقوں میں ہونے والے جرائم کے ذمہ داروں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور فلسطینیوں کی سرزمین ان کو واپس کی جائے۔