محرم ا لحرام کی آمد کے ساتھ امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے تشویش میں فطری اضافے کا احساس ہوتا ہے جس کی وجہ سے ماضی میں اس ماہ مقدس میں پیش آنے والے واقعات اور خاص طور پراس مہینے میں انتشار پھیلانے والے عناصر کی سازشوں کا خوف ہے ۔ محرم الحرام میں ریاست کے ساتھ ساتھ علمائے کرام اوردیگر رہنمائوں کی اس ذمہ داری میں اضافہ ہوتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ابتدائے محرم سے لے کر عشرہ محرم کا دور انیہ بطور خاص اس موقع پر ریاست کو دہشت گرد گروہوں کی طرف سے کسی بھی ممکنہ شرانگیزی کو بے اثر کرنے کے لیے مسلسل چوکنا رہنا چاہیے، خیبر پختونخوا میںحساس ضلع کرم پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔گزشتہ سال کرم کے واقعات کے پیش نظر ریاست کسی بھی طرح کی غفلت کی متحمل نہیں ہو سکتی۔جہاں ایک طویل ناخوشگوار صورتحال کے بعد جنوری میں ہونے والے امن معاہدے کے ذریعے ہی معاملات کو قابو میں لایا گیا تھا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ قبائلی عمائدین اور دونوں فرقوں کے علما کو محرم اور صفر کے دوران امن برقرار رکھنے کے لیے کوششوں میں اضافہ کی ذمہ داری نبھائیں ملک کے اس حساس حصے میں خدانخواستہ معاملات قابو سے باہر ہونے کی صورت میں سیکیورٹی فورسز کو تیزی سے حرکت میں آنے کے لئے پیشگی طور پر تیار رہنا چاہئے سوشل میڈیا پر بھی چوکنا نظر رکھنی چاہیے۔ بدقسمتی سے حقیقت یہ ہے کہ محرم کے حساس دنوں میں بہت سے آن لائن پلیٹ فارمز کو نفرت پھیلانے والے اور پریشانی پیدا کرنے والے تشدد بھڑکانے کے لیے استعمال ہوتے ہیںیہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ تیسری قوت سرگرم ہو گئی ہے اور وہ آن لائن فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا دینے کی کوشش کر سکتی ہے۔ اس لیے تمام متعلقہ اداروںکو سائبر اسپیس کی نگرانی کرتے رہنا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ بدنیتی کرنے والے عناصر سوشل میڈیا کو فرقہ وارانہ طور پر تفرقہ انگیز مواد پھیلانے کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب نہ ہوں نفرت انگیزی کے لیے صفر رواداری ہونی چاہیے پاکستان نے کئی دہائیوں کے دوران فرقہ وارانہ تشدد کے بدترین واقعات کا شکار رہا ہے ہمیں اس تاریک تاریخ کو پس پشت ڈال کر نفرت سے پاک ماحول بنانے کی ضرورت ہے، جہاں تمام فرقے آزادی اور تحفظ کے ماحول میں اپنی مذہبی رسومات ادا کر سکیں۔ اس کے لیے ریاست اور سول سوسائٹی دونوں کو زیادہ متحرک اور فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔
