بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) ایک عالمی مالیاتی ادارہ ہے جو ملکی معیشتوں کی نگرانی کرتا ہے، جس میں زرمبادلہ اور بیرونی قرضوں پر توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ یہ معاشی استحکام کو بڑھانے اور مالیاتی کمیوں کو دور کرنے کے لیے قرضے اور تکنیکی مدد فراہم کرتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کئی یورپی ممالک کو ادائیگیوں کے توازن کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے دسمبر 1945 میں بریٹن ووڈز معاہدے کے تحت آئی ایم ایف کا قیام عمل میں آیا۔ یہ تنظیم بین الاقوامی تجارت اور مالیاتی لین دین کی سہولت کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس کا صدر دفتر ریاستہائے متحدہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں واقع ہے۔ ١٩١ ممالک اس کے رکن ہیں۔ آئی ایم ایف کا فیصلہ سازی کا عمل بڑی حد تک بڑی طاقتوں سے متاثر ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں ووٹنگ کے حقوق کی غیر مساوی تقسیم ہوتی ہے۔ یہ ادارہ اپنے تقریباً تمام ممبر ممالک کو قرض فراہم کرتا ہے۔آئی ایم ایف کو اپنی پالیسیوں کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے جو اقتصادی فیصلہ سازی کو مرکزیت دیتی ہیں، ایسی شرائط عائد کرتی ہیں جو قومی خودمختاری کو محدود کرتی ہیں، اور ترقی پذیر ممالک پر طاقتور حکومتوں کے اثر و رسوخ کو بڑھاتی ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کی مداخلتیں انفرادی اقتصادی آزادیوں کی قیمت پر مالیاتی اداروں کے استحکام کو ترجیح دیتی ہیں، اس طرح مقامی منڈیوں کی خود کو درست کرنے اور قدرتی طور پر بڑھنے کی صلاحیت میں رکاوٹ پیداہوتی ہے۔پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے پانچ سے زیادہ مرتبہ آئی ایم ایف پروگرام حاصل کیا یعنی آئی ایم ایف نے پاکستان کو گزشتہ دہائیوں میں بار بار قرضے فراہم کیے ۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ۔ پاکستان دنیا بھر کے مالیاتی اداروں اور حکومتوں سے قرض لیتا رہا ہے اور اس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت شدید دباؤ کا شکار رہتی ہے اس لیے کہ پاکستان کی جی ڈی پی کا نصف سے بھی زیادہ ان قرضوں کی سود اور ادائیگیوں میں خرچ ہوجاتا ہے ۔اور پاکستان کودنیا سے مزید قرضہ لینے کے لیے پھر سے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے اس لیے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے بغیر اب دنیا مزید قرضے دینے سے کتراتی ہے ۔ پاکستان نے چینی بنکوں اور مالیاتی اداروں سے بہت زیادہ شرح سود پر قرضے حاصل کیے ہیں ۔ آئی ایم ایف کا پروگرام اس مقصد کے لیے ہوتا ہے کہ کسی بھی ممبر ملک کی معیشت کو استحکام ملے اور وہ اپنی بحالی کاسفر شروع کرے اس مقصد کے لیے آئی ایم ایف ان ممالک پر جن کو وہ قرضے یا پروگرام دیتا ہے پابند بناتا ہے کہ وہ معیشت کی بحالی اور استحکام کے لیے ان کی تجاویز اور شرائط کے مطابق بجٹ سازی کرے اور مالیاتی وسائل کا استعمال کرے ۔ ابتک جن جن ممالک نے آئی ایم ایف سے پروگرام لیے ہیں ان کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ آئی ایم ایف پروگرام سے ان کی معیشت کو کچھ زیادہ فائدہ نہیں پہنچا بہت سارے افریقی ممالک میں تو آئی ایم ایف کے مالیاتی پروگرام ان کی تباہی کا باعث بھی بنے ہیں ۔ پاکستان گزشتہ آئی ایم ایف کے پروگراموں کی وجہ سے بہت سارے شعبوں میں ٹیکسوں کا انبار لگا رہا ہے مگر کمال کی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کو ملک کی بدحالی کی اصل وجہ یعنی اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات و سبسڈیز نظر ہی نہیں آرہیں ۔ اس ملک میں ملازمین کو دی جانے والی تنخواہوں اور مراعات میں اتنی زیادہ ڈسپیرٹی ہے کہ دنیا میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ اس ملک میں مراعات یافتہ طبقہ کا ایک عام کارکن غیر مراعات یافتہ طبقے کے سب سے بڑے افسر سے زیادہ تنخواہ اور مراعات لیتا ہے ۔یہ سب کچھ آئی ایم ایف کو کبھی بھی نظر نہیں آیا۔ملک میں مہنگائی کی شرح جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اس کے لیے بھی آئی ایم ایف ذمہ دار ہے اس لیے کہ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر کے ریٹ بڑھے اور گیس بجلی اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ ہوا۔آئی ایم ایف کو آئی پی پیز نظر نہیں آتیں جو کھربوں روپے سالانہ مفت میں لے جاتے ہیں ۔ آئی ایم ایف کو بڑے زمیندار نظر نہیں آتے جو کھربوں کماتے ہیں مگر کوئی ٹیکس نہیں دیتے وہ سینکڑوں ادارے نظر نہیں آتے جو ایک پیسہ ٹیکس کی مد میں نہیں دیتے ۔ ملک گیر سطح پر ہونے والی کرپشن نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے ساٹھ فیصد سے زیادہ وسائل اور ترقیاتی فنڈز اصل کاموں اور موقع پر خرچ ہی نہیں ہوتے ۔ آئی ایم ایف کو بیوروکریسی اور دیگر شاہانہ مراعات یافتہ طبقے نظر ہی نہیں آتا کیا صرف تعلیم اور تعلیم دینے والوں پر ہی دنیا تنگ کرنے کے لیے ہم آئی ایم ایف کا سہارا لیا جا رہا ہے ۔دنیا کے بیشتر ممالک میں اساتذہ کو ٹیکسوں سے مکمل چھوٹ دی جاتی ہے ۔انہیں پبلک مقامات پر ممنوعہ جگہوں پر پارکنگ کی بھی اجازت دی جاتی ہے ۔ ائیر پورٹس پر انہیں قطاروں میں کھڑا نہیں کیا جاتا بلکہ ان کو عزت و تعظیم کے ساتھ خصوصی سکواڈ کے ذریعہ وی آئی پی لاونچز میں لے جاکر سہولت دی جاتی ہے ۔یورپ اور دیگر ترقی یافتہ دنیا میں استاد کے ایک خط پر اس کے طالب علموں کو تمام سہولیات مہیا کی جاتی ہیں ۔ دنیا میں تمام تہذیب یافتہ ممالک میں ایجوکیشن کا بجٹ سب سے زیادہ رکھا جاتا ہے ۔ اس ملک میں تعلیم کے لیے ٦٥ ارب اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے ٧٨٠ ارب روپے دئیے جاتے ہیں ۔آئی ایم ایف کے اپنے چارٹرکا جائزہ لیا جائے تو اس میں واضح ہے کہ غربت میں کمی روزگار پیدا کرکے کی جاسکتی ہے بھیک دینے سے تو غربت میں مزید اضافہ ہوگا ۔کیا آئی ایم ایف کو یہ خطیر رقم بھیک میں دینے سے منع کرکے اس سے روزگا ر پیداکرنے اور تربیت کا انتظام کرنا نہیں چاہئیے تھا جو کہ ان کے چارٹرڈ کا حصہ ہے مگر آئی ایم ایف کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ پاکستان میں خسارے میں جانے والی وزارتوں اور محکموں کو ختم کرنے اور ایک جیسے کاموں کے لیے چار چار محکموں کا وجود نظر نہیںآتا ۔بس آئی ایم ایف کو پاکستان میں صرف تعلیم ہی کا شعبہ نظر آرہا ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے اس شعبہ کو ختم کردیا جائے اس لیے کہ یہ اس ملک کی معیشت پر بوجھ ہے ۔ آئی ایم ایف کو پاکستان میں اشرافیہ کے استعمال میں لاکھوں گاڑیاں نظر نہیں آرہی ہیں ۔حالیہ دنوں میں ایف بی آر نے تیرہ ارب اور پنجاب حکومت نے چار ارب روپے کی نئی گاڑیاں خریدی ہیں ایک ایسے ملک میں جہاں سب کچھ قرض لے کر کیا جارہا ہے اس ملک میں اس عیاشی کی گنجائش بنتی ہے ۔ اسمبلی کے ممبران سینٹ و اسمبلیوں کے سپیکرصاحبان کی تنخواہوں میں جو پانچ پانچ سو گنا اضافہ ہورہا ہے وہ آئی ایم ایف کو نظر نہیں آرہا ہے ۔ ججوں ، بیوروکریٹس کی تنخواہوں اور مراعات اور پھر اشرافیہ کے بعداز ریٹائرمنٹ مراعات اور بعد از مرگ ان کے خاندانوں کو جومراعات مل رہی ہیں وہ آئی ایم ایف کو نظر نہیں آتیں ۔ پاکستان میں آئی ایم ایف ایک رانگ نمبر ہے جس کا استعمال کرکے یہاں غریب اور مظلوم طبقوںکا استحصال کیا جارہا ہے ۔ اساتذہ کو جو ٹیکس میں پچیس فیصد کی چھوٹ دی گئی تھی اگر اسے بھی آئی ایم ایف کانام استعمال کرکے واپس لے لیا جاتا ہے تو یہ غریبوں کے زندگی مزید مشکل میں ڈال دے گی ۔ تنخواہوں اور مراعات میں جو فرق پاکستان میں بڑھ رہا ہے وہ ایک دن کسی بدترین فساد کا پیش خیمہ ثابت ہوگا ۔ اس لیے کہ جن معاشروں میںطاقتور اپنی طاقت اور حیثیت کا غلط فائدہ اٹھا کر اپنے لیے فائدے اور دوسروں کے لیے مشکلات پید ا کریں وہاں ایک حد سے آگے پھر مفادات کا ٹکراؤ شروع ہوتا ہے جو کہ جھگڑوں اور انتشار پر ختم ہوتا ہے ۔
