چینی دارالحکومت بیجنگ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے دفاع کے اجلاس میں راجناتھ سنگھ نے مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کرنے سے انکار کیا ۔بھارتی میڈیا کے مطابق راجناتھ سنگھ کو اعتراض تھا کہ اس اعلامیے میں پہلگام میں ہونے والی دہشت گردی کا ذکر نہیں تھا اور نہ دہشت گردی کا منترا پڑھا گیا تھا اُلٹا اعلامیہ میں بلوچستان میں بھارت کی سرگرمیوں کا اشارتاََ ذکر تھا ۔شنگھائی تعاون تنظیم چین اور روس کے اثر رسوخ کی حامل تنظیم ہے جو مستقبل میں مغربی بلاک کے متبادل ایشیائی بلاک کا کردار ادا کر سکتی ہے ۔بیجنگ کے حالیہ اجلاس میں بھی چین روس تاجکستان ازبکستان قازکستان قرغیزستان پاکستان اور بھارت کے وزرائے دفاع شریک تھے ۔اس اجلاس میں جب بھارت اپنی پسند کا اعلامیہ جاری نہ کروا سکا تو راجناتھ سنگھ نے دہشت گردی پر یک طرفہ لیکچر دینے کا فیصلہ کیا ۔انہوںنے کہا شنگھائی تعاون تنظیم کے اراکین کو دہشت گردی کے خلاف متحد ہونا چاہئے ۔ان کا کہنا تھا کہ غیر ریاستی اور دہشت گرد گروہوںکے ہاتھ میں تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔اس چیلنچ سے نمٹنے کے لئے مشترکہ اقدامات اُٹھانا ہوں گے ۔ ایشیائی ملکوں کی تنظیم میں راجناتھ سنگھ کی فرسٹریشن اور تنہائی اعلامیے پر دستخط نہ کرنے سے واضح تھی ۔شنگھائی کانفرنس کے ہال تلے بھارت کے دوقریبی ہمسائے چین اور پاکستان بھی موجود تھے اور ایشیا کی دوبڑی طاقتوں روس اور چین بھی موجود تھے اور مجموعی طور پر ایشیا کی چار ایٹمی طاقتوں کا اکٹھ تھا ۔اپنے ہمسایہ اور علاقائی ملکوں میں بھارت کی یہ تنہائی قابل دید منظر بنا رہی ہے ۔دوسری طرف مغرب میں بھارت کا حال ان دنوں کچھ اچھا نہیں رہا ۔مغرب کا لاڈلہ اور چہیتا بھارت ان دنوں زیادہ محبوب نہیں رہا ۔جب سے بھارت نے یوکرین کی جنگ میں دوکشتیوں پر سوار ی کا کرتب دکھانے کا فیصلہ کیا مغرب میں اس کے لئے قبولیت اور پسندیدگی کا گراف گر گیا ہے۔مغرب میں نریندرمودی کے چمکتے دمکتے بھارت کے بُرے دن چل رہے ہیں۔دنیا کے کینوس پر اپنا منفر دمقام بنانے کی خواہش میں نریندرمودی دوکشتیوں کے سوار کی مشکل صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں ۔نریندرمودی نے یہ جان لیا تھا کہ اب بھارت اپنے بام عروج پر پہنچ چکا ہے جہاں اسے کوئی ڈرا دھمکا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ تحکمانہ انداز اپنا سکتا ہے ۔یہ سوچ اپناتے ہوئے نریندرمودی چین کے ساتھ اپنے مصلحت آمیز رویے کو فراموش کرتے رہے ۔بھارت عرصہ دراز سے الزام عائد کرتا رہا ہے کہ چین لداخ میں اس کی حدود میں خاموش پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہے بھارت نے
سرکاری سطح پر اس پر کبھی سخت ردعمل نہیں دکھایا حتیٰ کہ نریندر مودی تو ایک بار اس بات سے ہی صاف انکاری ہوگئے کہ چین نے اس کی زمین پر کوئی قبضہ کیا ہے ۔اپوزیشن جماعتوں نے کئی مواقع پر نریندرمودی کو غصہ دلانے کی کوشش کی اور کہا کہ وہ سارا زور پاکستان کے خلاف استعمال کرتے ہیں مگر وہ چھپن انچ چوڑا سینہ اور لال آنکھ چین کو کیوں نہیں دکھاتے تو بھارت کے علاقوں پر قبضہ کررہا ہے ۔اس کے باوجود نریندر مودی کی انا اور غیرت کبھی چین کے خلاف بیدار نہ ہو سکی ۔یہ وہ عملیت پسندی تھی جس میں بھارت خود کو چین کا ہم پلہ نہیں سمجھتا تھا اسی لئے وہ چانکیہ کے اصول کے مطابق اپنے سے زیادہ طاقتور کے آگے مونچھ نیچی کرنے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے تھا ۔اس کے برعکس جب مغرب کو بھارت کی ضرورت پڑی تو اس نے پہلے چین اور بعد ازاں روس کے خلاف استعمال ہونے سے پیٹھ دکھا دی ۔کواڈ کے نام پر مغرب نے بھارت کو جنوبی چین کے جزائر میں چین کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی مگر بھارت کو کواڈ میں رہتے ہوئے کسی عملی قدم کی ہمت نہ پڑی ۔اسی طرح جب یوکرین کی جنگ میں بھارت کو پکار ا گیا تو بھارت نے غیر جانبداری کے نام پر اپنی تنہا پرواز کا راستہ چنا ۔بھارت کی نیک نامی کا سکرپٹ لکھنے اور اس کا چرچا کرنے کی مہم مغرب نے دو دہائیوں
سے کسی فری لنچ کے طور پر نہیں کی تھی ۔جب مغربی ادارے اور میڈیا پاکستان کو جم کر بدنام کر رہا تھا تو اس کے پہلو بہ پہلو بھارت کو ایک نیک اور امن دوست تہذیب کا نمائندہ بنا کر پیش کیا جاتا تھا ۔اس رویے نے بھارت کی عادتیں بگاڑ نے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔بھارت نے اپنے ایشیائی ہمسایوں سے تو ایک مخاصمانہ رویہ اپنایا ہی تھا مگر وہ بوقت ضرورت مغربی ملکوں کی توقعات پر بھی پورا نہ اُتر سکا اور یوں پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کا شوقین بھارت خود ایک تنہائی کا سامنا کررہا ہے ۔شنگھائی کانفرنس میں راجناتھ سنگھ کا اظہار ناراضگی اور پہلگام واقعے پر مغرب سے اپنے لئے مطلوبہ حمایت نہ ملنے نے بھارت کو ایک عجیب مخمصے کا شکار بنا ڈالا ہے۔بھارت کے یہ برے دن مغرب میں کتنا عرصہ چلتے ہیں ؟یہ کہنا قبل ازوقت ہے مگر اس وقت سر پر منڈلانے والے یہ بادل چھٹ بھی سکتے ہیں کیونکہ بین الاقوامی تعلقات میں اگر فری لنچ نہیں ہوتا تو رشتوں کے منجمد اصول اور مستقل رویے بھی نہیں ہوتے ۔بھارت دوعشروں سے گاجریں ہی کھاتا رہا ہے ان دنوں اسے چھڑی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تو اس میں کسی اور کا نہیں بھارتی قیادت کا قصور ہے جو مغرب کی مہربانیوں کو فری لنچ سمجھ بیٹھے تھے۔کچھ اور نہیں پاکستان سے ہی اس پرپیچ تعلق اورمہرباں راتوں کا راز اور حقیقت معلوم کرنا چاہئے تھی۔
