صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات

خیبر پختونخوا میں صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ، ایچ آر سی پی

ویب ڈیسک: خیبر پختونخوا میں سال 2024کے دوران قانون کی عملداری کمزور رہی جبکہ صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق ایچ آر سی پی خیبر پختونخوا کے وائس چیئر پرسن اکبر خان نے پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ جاری کردی ۔
رپورٹ کے مطابق ملک میں جمہوری معیار میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی جس کی بنیادی وجہ عام انتخابات کی شفافیت پر بڑھتے ہوئے خدشات اور پارلیمانی نظام کی کمزوری ہے ۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں 2024کے دوران شدت پسندی کے باعث عام شہریوں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی فورسز کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا جو اس خطے کی بگڑتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے ۔
ضلع کرم میں فرقہ وارانہ تشدد اور قبائلی دشمنیوں کے نتیجے میں تقریباً 250ہلاکتیں ہوئیں جبکہ سڑکوں اور اشیائے خرد و نوش کی رسد کی بندش نے انسانی بحران کو جنم دیا اور اب بھی حالات نارمل نہیں ہیں ۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جمہوری حکمرانی شہری ازادیوں اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال نے اس خطے کے سیاسی اور سماجی استحکام پر سنگین سوالات کھڑے کیے ہیں تاہم 2024 کے انتخابات میں خواتین کی بھرتی ہوئی شرکت کو سیاسی شمولیت کی جانب ایک حوصلہ افزا قدم قرار دیا گیا ہے۔
صوبائی پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق توہین مذہب کے الزام میں 77 افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور 49 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں ایک خاتون بھی شامل ہے تاہم سوات میں ایک سیاح کو توہین مذہب کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بننے کا واقعہ بھی ملک بھر میں بڑھتے ہوئے ہجوم کے تشدد کے رجان کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہ، قومی جرگے سے قبل پشتون تحفظ قومی مومنٹ پر عائد پابندی نے شہری ازادیوں کو مزید محدود کیا ۔
رپورٹ کے مطابق سرکاری اعداد شمار کی بنیاد پر صوبے سے جبری گمشدگیوں کے کم از کم 150 نئے کیسز درج کیے گئے جن پر عدلیہ کو بار بار مداخلت کرنا پڑی تورخم بارڈر کے دوبارہ کھلنے سے نقل و ہرکت میں کچھ بہتری آئی لیکن مقامی سطح پر پابندیاں اور احتجاج جاری رہے ۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ قانون سازی کی رفتار سن رہی اور صرف 30 بل پیش کیے گئے جن میں سے 21 منظور ہوئے اور عدلیہ پر دبا برقرار رہا ،پشاور ہائی کورٹ میں 23 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں جبکہ مجموعی طور پر 38 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں جن میں متعدد توہین عدالت سے متعلق ہیں اور ان میں سیاسی و پولیس شخصیات فریق ہیں۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ میں سیلفی بنیادوں پر تشدد کے مستقل رجحان کو بھی اجاگر کیا گیا ہے جس میں گھریلو تشدد جنسی حملوں غیرت کے نام پر قتل کے سینکڑوں واقعات شامل ہیں، بچوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا جن میں درجنوں نابالغ بچوں کو بھی قتل کیا گیا ہے ،بدسلوکی یا جنسی استحصال شامل ہیں جو بچوں کے تحفظ کے نظام میں موجودہ سنگین خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔
خیبر پختونخوا اور وفاقی حکومت کے غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی کے منصوبے کے تحت افغان مہاجرین کی جبری بے دخلی کی ایک اہم گزرگاہ ہے۔
رپورٹ میں محنت کشوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ محنت کسوں کے حقوق کے خلاف ورزیاں بلا معطل جاری ہیں کم از کم 26 کان کن خطرناک حالات اور شدت پسند حملوں کے باعث جاں بحق ہوئے ۔
شدت پسندوں نے اغوا کے متعدد وارداتوں میں 30 سے زائد مزدوروں کو مختلف واقعات میں اغوا کیا جبکہ کم از کم اجرت بڑھانے کے صوبائی وعدوں کے باوجود مختلف صوبوں میں اجرت سے متعلق مسائل برقرار رہے۔
ایچ ار سی پی کی سالانہ رپورٹ میں ماحولیاتی مسائل کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جس کے مطابق شدید بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جبکہ پشاور دنیا کا الودہ ترین شہر رہا اور اس کا شمار دنیا کے الودہ ترین شہروں میں اب بھی شامل ہے۔
پریس کانفرنس سے پروفیسر ڈاکٹر سرفراز کوارڈینیٹر ایچ ار سی پی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی علاقوں میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے کہیں انسانی مسائل جنم دیئے تو وہاں پہ کاروبار بھی بہت خراب ر،ہے مرکزی حکومت کی جانب سے اور صوبائی حکومت کی جانب سے توجہ نہ ہونے کی وجہ سے عوام مختلف مسائل کا شکار رہے جس کی وجہ سے ایک طرف تو اور خم بارڈر انگور اڈا اور غلام جان حالات کی خرابی کی وجہ سے کئی بار بند رہے اور 22 ماہ سے انگور اڈا مسلسل بند ہے۔
رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ سابقہ فاٹا اضلاع کے ساتھ انضمام کے وقت جو وعدے کیے گئے تھے ان کو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا اور ان پر بجٹ میں 10 فیصد ٹیکس لگایا گیا جبکہ ان سے انضمام کے وقت وعدہ کیا گیا تھا کہ 2028 تک کوئی ٹیکس نہیں لگایا جائے گا جس کی وجہ سے کارخانے بند ہو رہے ہیں اور انڈسٹری کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے ۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ معاشرے کے مظلوم طبقے خواجہ سرئواں کو کئی مقامات پر بے دردی سے قتل کیا گیا اور کئی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے عدالتی احکامات کے باوجود لوکل گورنمنٹ کے ناظمین اور اپنے ہی کونسلروں کو مسلسل فنڈ سے محروم رکھا اور کئی مرتبہ ناظمین اور کونسلروں نے خیبر پختونخوا اسمبلی کے سامنے اپنے حق کے لیے مظاہرے کیے لیکن ان کو ان کے فنڈ سے مسلسل محروم رکھا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں امن و امان کی صورتحال کا نمایاں ذکر کیا گیا ہے جس کے مطابق ضم اضلاع مسلسل اگ کی لپیٹ میں رہے اور دہشت گردوں نے عام عوام کے ساتھ خوب کھلواڑ کیا۔

مزید پڑھیں:  عدالت نے اینٹی کرپشن کو سابق ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر شوکت کی گرفتاری سے روک دیا