سوشل میڈیا نے حالیہ برسوں میں انسانی سماج اور معاشرے کو جس تیزی کے ساتھ متاثر کیا ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔گزشتہ دس برسوں میں جب دنیا نے تیزی کے ساتھ ویب تھری تک سفر کیا اور ایک چھوٹے سے موبائل ایپ میں دنیا جہاں کی وہ سب مہارتیں بذریعہ مشین دستیاب کردیں جو اس سے پہلے ہالی ووڈ میں بھی ایک جگہ دستیاب نہیں تھیں تو ا س کا فائدہ اٹھا کر دنیا کی طرح پاکستان بھر میں بھی سب اداکار بن گئے اور خود کو دنیا کے سامنے نمائش کے لیے پیش کرنے لگے ۔یہ سلسلہ اگر کسی قواعد و ضوابط کے ماتحت ہوتا تو یقیناً ایک مثبت کام ہوتا مگر اس کام میں صدیوں کے مروجہ اخلاقیات کو یکسر ختم کردیا گیا اور جس کے جی میں آیا بدزبانی پر اُتر آیا ،جس کا جی چاہا لوگوں کی بے عزتی کرنے لگا ، اخلاق کی پستی کی کوئی آخری لائن نہیں رہی جس کو سوشل میڈیا پر مرد وعورت کراس نہ کرتے ہوں ۔یعنی سوشل میڈیا پر اچانک وہ سب کچھ ہوتا نظر آیا جس کا تصور تک اس سے چند برس پہلے کسی بھی معاشرہ میں نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ اس سوشل میڈیا سے سب سے زیادہ متاثر پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی بچیاں ہوئیں اور ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان کا شمار بھی ممکن نہیں ہے۔پاکستان کے شمالی علاقہ جات جس میں گلگت بلتستان اور چترال کے اضلاع آتے ہیں یہاں پہلے سے بچیوں کو دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ آزادیاں حاصل تھیں ان علاقوں کے لوگ اپنے بچیوں کو تعلیم دینے کے معاملے میں بھی ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ فعال تھے ۔ اس لیے ان علاقوں سے بچیوں نے اس میدان میں زیادہ پھرتیاں دکھائی ہیں ۔ انسٹا گرام ، فیس بک اور پھر ٹک ٹاک پر ان بچیوں کا آنا اور پھر ویوز لینے کے چکر میں ہر وہ کام کرنا جسے معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا مگر سوشل میڈیا میں ان کاموں کی وجہ سے پذیرائی زیادہ ملتی ہے ان بچیوں نے سوشل میڈیا پر معروف لڑکوں کی مدد لینی شروع کی جنہوں نے انہیں اخلاق باختگی کی تربیت بھی دی اور مواقع بھی فراہم کیے اور رفتہ رفتہ یہ ایک مستقل رجحان بنتا چلا گیا ۔ سوشل میڈیا پر فعال لڑکے اور لڑکیاں ان معاشرتی پابندیوں سے خود کو آزاد کر چکی ہوتی ہیں جو ہمارے معاشرے
میں ہیں اس لیے ان کا میل جول مغربی طرز پر ترقی کرتا رہا اور وہ سب کچھ جو کسی زمانے میں مغرب میں ہوتا تھا وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہی ہمارے معاشرے میں بھی آگیا اس لیے سوشل میڈیا پر مصروف رہنے والوں نے ساتھ مل کرکام کرنے اور مختلف علاقوں کا سفر کرنے ، روز پارٹیاں کرنے کا جورواج اپنایا ہے وہ ہمارے معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ پھر مشہور ہونے کے لیے لڑکیوں نے خصوصاً اپنی نازیبا ویڈز شیئر کرنے کا ٹرینڈ شروع کیا اس کے بعد بات آئے روز ٹاک ٹاکر ز کو قتل کرنے تک پہنچ گئی جس میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت آتی جارہی ہے ۔حالیہ ایک دو ماہ میں درجنوں ٹک ٹاکروں کو قتل کیا گیا ان میں کچھ غیرت کے نام پر بھی قتل ہوئے اور کچھ بدترین فرسٹریشن کا نتیجہ ہیں ۔یہ سلسلہ رُکے گا نہیں اس لیے کہ ہمارے معاشرے میں والدین اپنے بچوں کی تربیت نہیں کرتے ان کو وقت نہیں دیتے ان پر چیک نہیں رکھتے اور نہ ہی ان سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ان کے پاس پیسہ کہاں سے آرہا ہے ان کے پاس قیمتی لباس موبائل فون اور دیگر چیزیں کہاں سے آرہی ہیں اور تو اور جوان لڑکیاں ہفتوں ہفتوں گھر سے غائب رہتی ہیں مگر ان کے والدین کو اس کی کوئی فکر ہی نہیں ہے ۔مجھے یہ کالم لکھنے کا خیال اس وجہ سے آیا کہ میں شادی کی ایک تقریب میں گیا تھا ذرا وقت سے پہلے ہال میں پہنچا تو وہاں اچھی خاصی بھیڑ تھی یہ سب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تھیں شروع میں میں سمجھا کہ یہ سب شادی کی تقریب میں شامل ہیں لیکن کچھ دیر بعد مجھے پتہ چلا یہ سب ٹک ٹاکر اور انسٹاگرام انفلونسرز ہیں جو اس شادی کی تقریب کی چکاچوند کا فائدہ اٹھا کر اپنی اپنی ویڈیوز بنا رہے تھے میں ایک طرف بیٹھا ان کو دیکھتا رہا ۔یہ نوجوان لڑکیاں اور لڑکے آپس میں اس حد تک اخلاق باختہ گفتگو میں مصروف تھے کہ میں حیران پریشان تھا ۔اب بدقسمتی سے مجھے شمالی علاقہ جات کی زبانیں آتی ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق شمالی علاقہ جات کے پسماندہ ترین علاقوں سے تھا ۔ ان تمام بچیوں کے ہاتھوں میں چھ سات لاکھ کے دو دو موبائل فون تھے ۔ میں نے ان پر ظاہر کیے بغیر کئی ایک سے اردو میںبات چیت کی وہ سب مجھے نہیں جانتے تھے ۔ میں نے ان سے ان کے علاقوں کے بارے میں پوچھا ان تمام علاقوں اور وہاں کے لوگوں کی مالی حیثیت میں جانتا ہوں کہ وہ شاید دس ہزار کی کوئی شے بھی خریدنے کی مالی اسطاعت نہیں رکھتے ۔ میں حیران پریشان اسلام آباد کے بڑے شادی ہال میں ایک گھنٹے تک ان کا تماشہ دیکھتا رہا ۔ میں نے ان میں سے چند ایک سے پوچھا بھی کہ اسلام آباد میں کہاں رہتے ہیں تو ان میں سے کئی ایک نے بے دھڑک کہا کہ وہ فلان لڑکے کے ساتھ ریلیشن شپ میں ہیں اور ان کے فلیٹ میں ان کے ساتھ رہتی ہیں ۔ میں نے پوچھا کہ ریلیشن شپ سے مراد یعنی شادی شدہ ہیں تو ان سب کی ہنسی چھوٹ گئی اور کہنے لگیں کہ انکل شادی کے جھمیلوں میں کون پڑتا ہے ہم لائف انجوائے کررہے ہیں۔ یہ ہے آج کا پاکستان جہاں لڑکیاں اور لڑکے سرعام ان شہروں میں بغیر نکاح کے ریلیشن شپ کے نام سے ایک ساتھ رہتے ہیں ۔ میں نے کافی معلومات جمع کیں مجھے ایسا لگا کہ میں یورپ کے کسی ملک میں ہوں ۔مجھے ان لڑکوں اور لڑکیوں نے بتایا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی اور ان کے اطراف جو ہاوسنگ سوسائٹیز ہیں ان میں سینکڑوں کے حساب سے گھروں میں کلب بن چکے ہیں جہاں شراب اور دیگر ممنوع کام ہوتے ہیں ،بے شمار جگہیں ہیں جہاں روز پارٹیوں کا اہتمام ہوتا ہے ۔ جس میں لڑکے اور لڑکیاں جاتی ہیں اور وہاں سے جوکمائی ہوتی ہے اس سے ان کی زندگی کی گاڑی چل رہی ہے ۔ اس دور میں اگر منٹو زندہ ہوتا تو شاید وہ بھی پاگل ہوجاتا اس لیے کہ منٹو کے طوائفوں میں بھی بڑا رکھ رکھاؤ اور اخلاقیات کا ایک سلسلہ موجود تھا ۔ اب تو کوئی اخلاقیات نہیں کوئی شرم نہیں ہے ۔ میں سوال پوچھتے ہوئے شرماتا تھا اور سامنے سے لڑکیاں اور لڑکے ایسے بولڈ جواب دیتے کہ سن کر پسینہ آجاتا تھا ۔ ان لڑکوں اور لڑکیوں کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ یہ سارے کام اس
معاشرے میں معیوب سمجھے جاتے ہیں ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اس سلسلے میں پولیس تنگ نہیں کرتی تو ان کا جواب چونکا دینے والا تھا کہ ان پارٹیوں میں سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے بچے زیادہ ہیں جن کو پولیس تو کیا یہ پورا نظام کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد میں ایک امیر زادے نے دوسری امیرزادی کو جس بے دردی کے ساتھ قتل کیا تھا اس میں کسی نے بھی یہ سوال نہیں اٹھایا تھا کہ یہ دونوں عرصہ سے بغیر نکاح کے ایک ساتھ رہتے تھے اور یہ سب کچھ ان کے والدین کے علم میں تھا ۔ حالیہ دنوں میں ٹی وی کی سب سے بڑی خبر اور مسلسل دس دن تک ایک ٹاک ٹاکر کی قتل کی خبر ابھی میڈیا پر مختلف حوالوں سے گردش کرتی رہی ہے ۔ یہ سب جو ہورہا ہے ٹھیک نہیں ہورہا ۔ اس لیے کہ اس سے معاشرے میں شدید ترین بگاڑ پیدا ہوچکا ہے ۔پسماندہ علاقوں کی بچیاں دو چار برس یہاں اس ماحول میں رہ کر جب واپس اپنے پسماندہ علاقوں کو لوٹتی ہیں تو کچھ ہی دنوں میں خودکشی کرلیتی ہیں ۔ کسی دن شمالی علاقہ جات میں ہونے والی خودکشیوں کی فہرست نکال کردیکھیں ان کی تعداد سینکڑوں میں ہے ۔ بطور معاشرہ ہمارا نظام ختم ہوچکا ہے ۔ خاندانی نظام بھی فعال نہیں ہے ۔ والدین کا کردار بھی اب وجود نہیں رکھتا اور ان بچوں اور بچیوں کو ہم نے موبائل فون کے حوالے کردیا ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں اخلاق باختہ لوگ ان کی تربیت کررہے ہیں ۔ آپ جو کچھ دیکھتے ہیں ، سنتے ہیں اور جس ماحول میں زندگی بسر کرتے ہیں وہ آپ پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ آج کل آپ کے بچے موبائل فون اور سوشل میڈیا کے ماحول میں ہیں وہ وہاں وہی سیکھیں گے جو اس میں دکھایا جارہا ہے ۔ اس لیے ابھی بھی وقت ہے اپنے بچوں کو ٹائم دیں ان کی کونسلنگ کریں اور انہیں سوشل میڈیا کے رحم وکرم پر نہ چھوڑیں ۔ خصوصاً شمالی علاقہ جات کے والدین اپنے بچوں پر ترس کھائیں انہیں اکیلے پشاور اسلام آباد اور دیگر شہروں میں جانے کی اجازت نہ دیں اور نہ ہی وہاں رہنے کی اجازت دیں اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو کچھ دنوں میں کوئی انہیں مار دے گا یا پھر وہ خود خود کشی کرلیں گے اس لیے کہ ان کے پاس تیسرا راستہ کوئی نہیں ہے۔
