میں نے جب سے ہوش سنبھالا تووطن عزیز میں بجلی کی کمی کاسن رہاہوں۔ 80 اور 90 کی دہائی سے لوڈشیڈنگ سے جب سے واسطہ پڑا ہے اس سے تنگ آگئے ہیں گرمی کے اس موسم میں جن علاقوں میں شدید لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے وہاں کے لوگوں کی زندگی کس قدر اجیرن ہے اس کا اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے گزشتہ چند دھائیوں میں دنیا نے ترقی کی بہت ساری منزلیں طے کیں ۔ ٹیکنالوجی بہتر سے بہتر کی طرف بڑھتی رہی ، یہاں تک کہ ساری دنیا میں اب گاڑیاں بھی بجلی سے چل رہی ہیں، دنیا نے ان کے لئے بھی بجلی پیدا کرلی ہے ، وہاں پر سب کچھ بجلی پر چل بھی رہا ہے اور انہیں کسی قسم کی تکلیف بھی نہیں ہورہی ۔آلودگی میں بھی اضافہ نہیں ہو رہا ہے پاکستان نے بھی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ترقی کرنے کی تقلید شروع کی تاہم ہمارے وطن میں پہلے سے موجود بجلی پر چلنے والی چیزیں چلانے کے لئے بجلی دستیاب نہیں ایسے میں اگر گاڑیاں اور موٹر سائیکل بھی بجلی پر چلنے لگے تو لگتاہے خدشہ ہے کہ ملک کی ترقی کی گاڑی بھی رک سی جائے گی۔ گزشتہ پانچ سے زائد دھائیوں میں لوڈشیڈنگ میں اتار چڑھائو ضرور آئے مگر سردی ہو کہ گرمی ہرموسم لوڈشیڈنگ جاری رہی ، بلکہ یوں کہاجائے کہ ہر آنے والے سالوں میں لوڈشیڈنگ بڑھتی ہی چلی گئی۔ نوے کی دہائی میں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدہ کیا گیا اس کا بھرپور ڈھنڈوراپیٹا گیا کہ اب کارخانوں کارکا ہوا پہیہ نہ صرف چلنا شروع ہوجائے گا بلکہ خوب دوڑے گا اور کارخانوں میں تیار کی جانے والی اشیاء برآمد کرکے خوب زرمبادلہ کمائیں گے اور یہ چند روپے مہنگی خریدی گئی بجلی کا خرچہ بھی پورا ہوجائے گا یوں پاکستان کی معیشت کے ساتھ ساتھ زرمبادلہ بھی زیادہ ہوگا۔ پن بجلی اس وقت بھی سستی ترین تھی اور آج بھی سستی ہے لیکن کچھ تو ان آئی پی پیز نے اپنے من مانے ریٹ لگواکر عوام کے بجلی کا فی یونٹ اتنا مہنگاکردیاہے کہ اللہ کی امان۔ یہ آئی پی پیز کی جھونکیں ہمارے سارے وسائل کھا رہی ہیں گزشتہ حکومتوں نے نہ تو ان سے جان چھڑانے کا کبھی سوچا اور نہ ہی اس کے نرخوں کو مناسب کرنے کی کوشش کی۔موجودہ حکومت کے آنے سے عوام کو بہت ساری امیدیں تھیں کہ 80 اور 90 کی دہائی سے جو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ میوزیکل چیئر کھیل رہی تھیں ہر ایک سیاسی پارٹی دوسری سیاسی جماعت کی حکومت کو چلنے دینے کی بجائے اپنی تمام تر توانائیاں ہر حکومت کی ٹانگ کھینجنے میں لگاتے رہی ہیں ۔ اب ملک عزیز پاکستان میں یہ تمام کی تمام سیاسی پارٹیاں متحدہوچکی ہیں اور ایک حکومت کا حصہ ہیں ۔ اس سے بھی بڑھ کر عوام کی امیدیں دوگنی اس طرح ہوچکی ہیں کہ پنجاب سپیڈان ساری سیاسی جماعتوں کے وزیر اعظم ہیں ۔ایسے میں عوام کی امیدیں تھیں کہ بجلی کے مد میں ان کو رعایت مل جائے گی گو کہ یہ مشکل کام ہے لیکن بہرحال حالیہ دنوں حکومت کی جانب سے اس مد میں کافی کوشش تو نظر آئی ہے اب بجلی کے بل آئیں گے تو پتہ چلے گا کہ حکومت نے ریلیف دی ہے یامزید بوجھ بڑھا دیا ہے بہرحال اب عوام کی امید ہے کہ شہباز سپیڈ اپنے کامیابیوں کے سلسلے جاری رکھیں گے اور پنجاب کے بعد اب پاکستان کی وفاقی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے پورے ملک میں ترقیاتی کاموں کو بھی اسی سپیڈ سے نہ صرف مکمل کریں گے بلکہ عوام تک اس کے اثرات بھی پہنچائیں گے۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور بجلی مہنگی ہونے کے باعث عوام کا شمسی توانائی کی طرف راغب ہونا فطری امر تھا لیکن دیکھا جائے تو لوگوں کی بامر مجبوری سولر سسٹم لگانا بھی کوئی سستا سودا نہیں اس کے باوجود بہرحال اس کا کوئی اور متبادل نہیں بہرحال اب تو سولر سسٹم کے نرخ بھی اتنے کم ہو گئی ہیں تاکہ عوام میں ان کی کشش ہواور عوام اپنے ہی خرچہ پر بجلی بنائیں جس سے عوام حکومت کی طرف دیکھنا کم ہو ۔ سولر سسٹم کی جہاں حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے وہاں نامکمل اور زیر تعمیر ڈیم پر کام کی رفتار تیز کرکے نہ صرف ان کی تکمیل کی ضرورت ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اب کالا باغ ڈیم کے منصوبے پر بھی غور کرنا چاہئے بھارت جس طرح بار بار پانی بند کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے قطع نظر اس کے کہ ا ن کے گیڈر بھبکیوں کی حقیقت کیا ہے خشک سالی اور موسمی تغیرات کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے آبی بجلی اور آبپاشی کے لئے ڈیمز کی تعمیر پرغور ہونا چاہئے چھوٹے چھوٹے اور کم لاگت کے تالاب بنانے اور زیر زمین پانی کی سطح کو برقرار رکھنے کے لئے بھی محولہ قسم کے منصوبے ناگزیر ہیں توقع ہے حکومت ملک میں بننے والے ڈیموں پر اپنی پوری توانائیاں لگائیں گے اور یوں پاکستان کو لوڈشیڈنگ جیسی بیماری سے نجات ملے گی۔ آئی پی پیز کے خلاف گزشتہ کئی ماہ سے دونوں ایوانوں میں خوب بحث ہوئی اور اس کے بعد سے گزشتہ کئی ماہ سے بیانات تو سن رہے ہیں تاہم کچھ ہوتاہوا نظر نہیں آرہا، کیونکہ ہم تب مانیں گے جب عوام کو سستی بجلی ملے گی۔ ابھی کل کی بات ہے کہ خود وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اور ان کے وزیر توانائی نے بھی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ اگلے چند ماہ میں بجلی کے نرخوں میں نمایاں کمی لائی جائے گی۔ اویس لغاری نے کہاکہ وفاقی حکومت بجلی کی ترسیلی نظام میں خرابیاں دور کررہی ہے اوور بلنگ کم ہوچکی ہے اور اسے ختم کرکے دم لیں گے۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ موجودہ حکومت نے گزشتہ نو ماہ میں پاور سیکٹر میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ان کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے صحافیوں کو بتایا کہ پی ٹی آئی حکومت کی پالیسیوں پر کام کرتے رہتے تو اگلے دس سال تک عوام بجلی کی اضافی قیمت ادا کرتے رہتے ۔ ان کی حکومت نے اگلے چار سالوں میں عوام کو بجلی سیکٹر کی مشکلات سے نکالنا ہے ۔ اویس لغاری نے بتایاکہ ان کی حکومت نے آئی پی پیز سے 638ارب روپے کی بچت کرچکی ہے اور اسے ایک ہزارارب روپے تک پہنچایا جارہاہے۔ چین کی آئی پی پیز کے ساتھ بھی بات چیت چل رہی ہے اور اس بچت کا پورا فائدہ عوام تک پہنچے گا۔عوام اسی انتظار میں ہیں آخر کب یہ فائدہ عوام تک پہنچے گا۔ سستی بجلی کا خواب کبھی پورابھی ہوگا کہ نہیں۔ سیاست دانوں کے بیانات میں کتنی حقیقت ہے اور کتنے صرف سیاسی نعرے ہیں۔
