13 جون تا 24 جون مسلسل اسرائیلی فضائی قوت اور 21-22 جون کے درمیانی شب صبح کے آغاز کے ساتھ امریکی بنکر بسٹرز کا شکار ہونے والی ایرانی ایٹمی تنصیبات نے اپنی کوکھ سے ایک بڑے سیاسی سوال کو جنم دیا ہے جس کا جواب فوجی قوت کے استعمال سے ممکن نہیں بلکہ سفارتی سوجھ بوجھ، کچھ دو اور کچھ لو، میں ممکن نظر آ رہا ہے ۔سوال یہ ہے کہ ایران کا متنازعہ ایٹمی پروگرام جو ایٹمی ہتھیار بنانے کی حدود میں داخل ہو چکا تھاوہ ایران کی تین اہم ایٹمی تنصیبات فور دو، ناتانز اور اصفحان پر امریکی حملے کے بعد تباہ ہو گیا ہے؟ اگر نہیں تو کیا باقی بچا ہے؟ اور کیا ایران دوبارہ ایک فوجی قوت بننے کی کوشش کر سکے گا؟ یہ سوال اس کنفیوژن یا غیر یقینی صورتحال کے پیدا ہونے سے اور زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے جو اس جنگ میں موجود فریقوں کے خود تردیدی یا تضاد بیانی کے بعد سامنے آئی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے حکم پر اسرائیل کے معاونت اور حمایت میں جو شدید ترین حملہ ان کی ایٹمی تنصیبات پر کیا گیا اس کے فوری بعد امریکی صدر ٹرمپ نے ایک لحاظ سے مکمل فتح کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ایران کی ایٹمی تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے اسرائیل کے جنگجو اور انسانیت سے عاری وزیراعظم نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ سے ایک ہاتھ آگے بڑھ کے دعوی کر دیا کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا ہے لیکن حملہ آوروں کی یہ خوشی اس وقت افسوس میں تبدیل ہو گئی جب امریکی محکمہ دفاع کی زیر نگرانی کام کرنے والی امریکن نیشنل ڈیفنس ایجنسی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں ایران کی ایٹمی تنصیبات کے نقصانات اور تباہی کو بہت زیادہ خطرناک قرار نہیں دیا ۔یورپی انٹیلی جنس سروسز نے بھی ایران کی ایٹمی تنصیبات کی تباہی کو ادھورا قرار دیتے ہوئے اس شبہ کا اظہار کیا کہ شاید ایران کی یورینیم افزودہ کرنے اور اس کو ایٹم بم بنانے کے قابل بنانے کی صلاحیت اپنی جگہ بدستور موجود ہے۔ امریکی صدر کا رویہ، ان رپورٹس کے بعد بہت زیادہ غضبناک تھا اور انہوں نے پہلے مرحلے پر ان اطلاعات کو جھوٹ خبروں پر مشتمل قرار دیا لیکن اس کے ساتھ ہی امریکی جنرل ڈین کین کا بیان آیا جس میں ایرانی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملے کو تباہ کن قرار دیا گیا لیکن اس میں کوئی یقینی بات بیان نہیں کی گئی کہ آیا کہ ایران کی ایٹمی صلاحیت مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہے یا نہیں۔ انٹرنیشنل ایٹامک انرجی ایجنسی کے متنازعہ ڈائریکٹر جنرل رافیل گراسی کا بیان اس سلسلے میں بہت اہم تھا کہ کافی زیادہ تباہی ہوئی ہے لیکن مکمل نہیں اور ایران دو ماہ کے اندر ایک ممکنہ بم بنانے کے لیے یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔ اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے ترجمان بریگیڈیر جنرل ایفی ڈیفرن کے 27 جون کے بیان نے ان کے وزیراعظم نیتن یاہو کے بیان کو سر کے بل کھڑا کر دیا جب انہوں نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ فی الحال ایران کو ایٹم بم بنانے سے روک دیا گیا ہے ۔ ان کا اشارہ امریکی کارروائی اور اس کے متنازعہ نتائج کی جانب تھا۔ اس دوران 28 جون کو ٹائمز اسرائیل نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کا حوالہ دے کر لکھا کہ اصفہان کی ایٹمی سائٹ پر حملے میں وہ آلات تباہ کر دیے گئے ہیں جو ایٹم بم کے لیے اہم تھے۔ ایران کی ایٹمی سائٹس کی بم بنانے یا نہ بنانے کی صلاحیت کے تباہ ہونے کا سوال اس وقت مزید پیچیدہ تر ہو گیا جب ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اعلان کیا کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو امریکی حملے میں زیادہ نقصان نہیں ہوا لیکن معاملہ اور بھی الجھ گیا جب ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایک دوسرا بیان دے ڈالا جس میں ایران کے ایٹمی اثا ٹاجات کو امریکی حملے کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کو بہت زیادہ قرار دیا گیا ۔ایٹمی تنصیبات میں ہونے والے نقصانات کے بارے میں متنازعہ بیان کی جھلملاہٹ میں امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اپنے ابتدائی بیان سے رخ موڑ لیا اور یہ بیان دے ڈالا کہ امریکی حملے کے بعد ایران کا ایٹمی پروگرام کئی دہائی پیچھے چلا گیا ہے۔ لیکن ان کا یہ بیان حسب سابق ایک دھمکی کے ساتھ منسلک تھا کہ اگر ایران نے دوبارہ ایٹمی قوت بننے کی کوشش کی تو اس کی ایٹمی تنصیبات پر دوبارہ حملہ کر کے ان کو ختم کر دیا جائے گا اسرائیل کی طرف سے بھی یہ واضح بیان آگیا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف کارروائی میں ابھی صرف ایک وقفہ آیا ہے اور یہ کاروائی ختم نہیں ہوئی ہے مطلب واضح ہے کہ کسی بھی کسی بھی ایرانی ایٹم بم بنانے کی کوشش کو مکمل طور پر دوبارہ سبوتاژ کر دیا جائے گا۔ دوسری جانب ایرانی فوج کے سربراہ جنرل عبدالرحمن موسوی کا بیان بھی قابل قابل غور ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کو برقرار نہیں رکھنا چاہتا ہے۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ کچھ اطلاعات کے مطابق ایرانی حکام امریکی حملے سے کچھ قبل 400 یا 480 کلوگرام 60 فیصد حد تک افزودہ یورینیم کو کسی دوسرے خفیہ مقام پر لے جانے میں کامیاب ہو گئے تھے اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے مطابق یہ یورینیم نو تا دس ایٹم بم بنانے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ کچھ دیگر اطلاعات کے مطابق ایرانی اٹامک سائٹس پر سینٹری فیوجز کی لیبارٹریز اتنی زیادہ گہرائی میں واقع ہیں کہ شدید ترین 30 ہزار پونڈ کے بنکر بسٹر بم پہاڑوں کی مضبوط تہوں کو توڑ کر ان تک داخل نہ ہو سکے نتیجتا ایران کے پاس ایٹم بم بنانے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ ایران کی اقوام متحدہ میں سفیر امیر سعید اروانی نے یورینیم کی افزدوگی کے مسئلے کو یہ بیان دے کر مزید الجھا دیا ہے کہ ایران کبھی بھی اپنے مقامی طور پر یورینیم افزودہ کرنے کے حق سے دستبردار نہیں ہوگا اور نہ ہی اپنے بلاسٹک میزائل پروگرام کو ختم کرے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایران بین الاقوامی نگرانی میں اپنے ہی پلانٹس میں یورینیم کو افزودہ کرے ۔ اس لحاظ سے اگر یہ تعین کرنے کی کوشش کی جائے کہ ایران کی پہ ایٹمی تنصیبات کس حد تک تباہ ہوئی ہیں مکمل یا دوبارہ قابل عمل بنانے کی حد تک؟ کیا ایران ایٹمی قوت بننے پر اصرار کرتا رہے گا؟ تو اس کا جواب ابھی تک کسی نہ کسی مفروضے کو بنیاد بنا کر دیے گئے بیانات کی روشنی میں دیا جا رہا ہے اور کوئی باقاعدہ ثبوت موجود نہیں ہے ۔اس کی وجہ ایران کی پارلیمنٹ کی جانب سے پاس کردہ ایک قانون سازی بھی ہے جس کے تحت ایران نے فی الحال اپنے ایٹمی تعاون کو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ ختم کر دیا ہے نہ صرف یہ بلکہ ایران نے ائی اے ای اے کی ایک 30 جون کی درخواست کو بھی مسترد کر دیا ہے جس میں رافیل گراسی کو ایران کے ایٹمی پلانٹس کے معائنے کی اجازت دینا شامل تھا۔ اس طرح جب تک بین الاقوامی ایجنسی کے انسپیکٹرز باقاعدہ طور پر ایران کی ایٹمی پلانٹس میں ہونے والی تباہی کا کوئی اندازہ یا تخمینہ نہ لگا لیں کسی مصدقہ اطلاع کا آنا ممکن نظر نہیں آتا اور اس سلسلے میں مفروضات کا سہارا ہی لیا جاتا رہے گا۔ اب اگر اس جانب دیکھا جائے کہ آگے کون سا راستہ جاتا ہے جنگ کا یا امن کا۔ تو امن کے راستے پر سفارت کاری کے سفر کا آغاز تقریبا ہو چکا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے نیدرلینڈ میں نیٹو کے سربراہان کی کانفرنس کے اختتام پر 25 جون کو یہ اعلان کیا تھا کہ اس جولائی کے رواں ہفتے میں ایران سے مذاکرات شروع ہوں ۔ ایران امریکہ ایٹمی مذاکرات چھٹے دور میں داخل ہونے کو تھے کہ اسرائیل نے 13 جون کو ایران پر حملہ کر کے یہ مذاکرات کا طریقہ کار ختم کرا دیا تھا ۔صدر ٹرمپ کے خیال میں ان کے خصوصی مشیر برائے مشرق وسطی اسٹیو وٹکاف اور امریکی مذاکرات کاروں کی یہ بات چیت دوبارہ شروع ہو سکے گی۔ ایران کی جانب سے ان کے وزیر خارجہ نے 29 جون کو اپنے ایک بیان میں بتایا تھا کہ مذاکرات دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں ایرانی وزیر خارجہ نے واضح طور پر یہ بھی کہا کہ اتنی جلدی مذاکرات کا انعقاد ممکن نہیں ہے امریکہ پہلے ایران کو اطمینان دلا دے کہ وہ مذاکرات کے دوران ایران پر دوبارہ حملہ آور نہیں ہوگا اور اس سلسلے میں ہم کو بھی وقت درکار ہے۔ مبصرین کے خیال میں ایران ایک بار پھر وقت کو طول دینا چاہتا ہے ان مذاکرات میں سب سے اہم پہلو یورینیم کی افزودگی کا ہے ایران اس سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا اور امریکہ اور اسرائیل ایسا کسی صورت ہونے نہیں دینا چاہتے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ ایران مذاکرات کافی حد تک غزہ میں ہونے والے مذاکرات پر منحصر ہیں۔ اگر حماس اور اسرائیل امریکی دعوے کے مطابق کسی جنگ بندی اور بعد ازاں کسی معاہدے پر آ جاتے ہیں تو ایٹمی مذاکرات کا ہونا مزید آسان ہو جائے گا۔ ایران اب کسی صورت میں جنگ نہیں چاہتا لیکن مذاکرات میں کافی کچھ حاصل بھی کرنا چاہتا ہے یہ اسی وقت ممکن ہے جب وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی نگرانی میں پہلے کی طرح دے دے اور واضح طور پر ایٹمی ہتھیار اور بلاسٹک میزائل بنانے کی ٹیکنالوجی کے استعمال سے دستبردار ہو جائے۔ آنے والے کچھ دن بڑے اہم ہیں جو ایران اور غزہ کے مستقبل کا تعین کریں گے۔
