3 121

میں چپ رہا تو مجھے ماردے گا میرا ضمیر

چند روز قبل ہونے والے پی آئی اے کے حادثے نے سوال اُٹھا دیئے تو ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اخلاقی طور پر ازخود ہی وزارت چھوڑنے کی بجائے لسوڑہ بن کر کرسی سے چمٹے رہنے سے اب پورا ادارہ ہی سوالات کی زد میں ہے، ویسے بھی ہمارے ہاں کبھی ریلوے حادثات پر کسی نے استعفیٰ نہیں دیا اور یہ کہہ کر جان چھڑائی جاتی رہی کہ ”میں کوئی انجن ڈرائیور ہوں کہ مستعفی ہو جاؤں” چہ جائیکہ اب تو عدالت نے بھی وزیر ہوابازی کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے وزیرموصوف کو خیالی اور تصوراتی مونچھوں کو تاؤ دینے کا موقع فراہم کر دیا ہے، تاہم کراچی حادثے کی انکوائری رپورٹ سے توجہ ہٹانے کیلئے جس بیانئے کو اپنایا گیا اس کی وجہ سے نہ صرف پی آئی اے کا پورا ادارہ تباہی سے دوچار ہونے کے شدید خطرات سر پر منڈلانے لگے ہیں اور دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہونے کیساتھ سینکڑوں کی تعداد میں پاکستانی پائلٹوں اور فلائٹ انجینئروں کو برطرفی یا کم ازکم گراؤنڈ کرنے کی کارروائیوں سے پشتو کے ایک محاورے کے مطابق سوکھی لکڑیوں کیساتھ گیلی لکڑیوںکے جل جانے کے امکانات عملی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔ درست ہے کہ ادارے میں جعلی لائسنسوں والے پائلٹ، فلائٹ انجینئرز اور دیگر متعلقہ عملہ موجود ہے جن کی ناقص کارکردگی سے انسانی جانوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور یہیں سے دنیا کے دوسرے فضائی اداروں میں بھی لاتعداد لوگ جا کر ملازمت کر رہے ہیں تاہم بہ یک جنبش قلم تمام کے تمام کو ”جعلی” اسناد کے حامل قرار دیکر ان پر سوال اُٹھانے سے جو تباہی اس ادارے کا مقدر بنا دی گئی ہے اسکے نتائج آنے والے دنوں میں کیا ہوسکتے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اس سے آنکھیں بند کردی جائیں یعنی اب مبینہ جعلی لائسنس یافتہ پائلٹوں اور انجینئروں کیساتھ ان لوگوں کو بھی شک کی نگاہوں سے دیکھنا لازمی ٹھہر چکا ہے جو جینوئن لائسنسوں کے حامل ہیں اور ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان بے چاروں کا کیا قصور ہے؟ انکی حالت تو میر تقی میر کے الفاظ میں کچھ یوں بن گئی ہے کہ
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
وہ بھی کیا زمانہ تھا جب پی آئی اے دنیا کے گنتی کے ان چند اداروں میں سے ایک ادارہ تھا جس نے بجاطور پر اُردو میں یہ نعرہ دیا تھا کہ ”باکمال لوگ، لاجواب پرواز” جبکہ انگریزی میں نعرہ یہ تھا کہ گریٹ پیپل ٹو فلائی ود، اور ان دونوں نعروں میں کوئی شک تھا ہی نہیں کہ واقعی پروازوں کی سبک رفتاری سے لیکر عملے کی خوش اخلاقی کیبن کریو کی دیدہ زیب جامہ پوشی، دوران پرواز اعلیٰ معیار کے کھانوں، ایئر پورٹس پر انتظامات کی نفاست پر پہنچا دیا تھا، مگر بعد میں جب اس ادارے پر سیاست کے منحوس سائے پڑنے شروع ہوئے اور سیاسی بنیادوں پر بھرتیوں سے ادارے کا بھرکس نکالا گیا تو زوال نے ہر جانب ڈیرے ڈالنا شروع کر دیئے، یہاں تک کہ ادارے کا بینڈ بجا دیا گیا، اوپر سے فلائٹ کا عملہ بھی کہیں غیرتربیت یافتہ جعلی اسناد کا حامل اور اس سے بڑھ کر اعلیٰ تربیت یافتہ افراد نے دنیا کی دوسری فضائی کمپنیوں کا رخ کر کے پی آئی اے کے تابوت میں کیلیں ٹھوکنا شروع کردیں، جبکہ حالیہ واقعے نے تو وہ آخری کیل بھی اتنی قوت سے مردہ ادارے کے تابوت میں ٹھوک دی ہے کہ اب یہ ادارہ پھر اپنے پیروں پر کھڑا ہونا تو درکنار شاید پہلو بدلنے کے قابل بھی نہ ہوسکے کہ یورپی یونین نے تو اس کی پروازوں پر چھ ماہ کی پابندیاں لگا دی ہیں جبکہ دوسرے ممالک کی جانب سے بھی یورپی ممالک کی تقلید کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا اور یہ سب کچھ صرف اسلئے ہوا کہ چند لوگوں کو حالیہ کراچی حادثے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار مقصود تھا، یوں انہوں نے پہلے تو تحقیقاتی رپورٹ پر مبینہ طور پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہوئے ملبہ پائلٹ پر ڈالنے اور بعد ازاں اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے سے جان چھڑانا تھا، عدالت نے بے شک وزیرموصوف کی برطرفی کو وزیراعظم کا منصب قرار دیا ہے، مگر دنیاوی عدالت کے علاوہ ایک ضمیر کی عدالت بھی ہوتی ہے، سعید دوشی نے کہا تھا
میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر
گواہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا
اس معاملے میں ضمیر کی عدالت کیا کرسکتی ہے جب صرف چند لوگوں کی جان بچانے کیلئے پورے ملک کی عزت داؤ پر لگا دی گئی ہے جیسا کہ اوپر کی سطور میں عرض کیا جا چکا ہے کہ اگر ادارے کو بعض غیرتربیت یافتہ یا پھر جعلی ڈگریوں والے دیمک کی طرح چاٹ رہے تھے تو انہیں یہ کہہ کر استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا کہ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو یا نکلی، مگر اس معاملے کو یوں طشت ازبام کر کے دنیا بھر میں ہلچل مچانے کی بجائے اگر خاموشی کیساتھ اس حوالے سے پہلے تحقیقات کا ڈول ڈالا جاتا اور ”آپریشن” تب کیا جاتا جب تمام حقائق سامنے آجاتے تو اس طرح اصلی اور نقلی کے درمیان واضح لکیر بھی کھینچی جا سکتی تھی اور دنیا بھر میں پاکستان کی یوں سبکی نہ ہوتی، مگر بعض لوگوں کی جانب سے کچھ اور ”مکو ٹھپنا” مقصد ہے جبکہ پی آئی اے کی قیمتی جائیدادوں پر کچھ لوگوں کی حریص نظروں کی جانب بھی اشارہ کیا جارہا ہے، خاص طور پر نیویارک میں ملکیتی ہوٹل کو اونے پونے حاصل کرنا، بہرحال اصل مقاصد جو بھی ہوں پی آئی اے کا دھڑن تختہ کرنے سے زیادہ پاکستان کی بدنامی پر افسوس کرنا تو بنتا ہے۔ جون ایلیاء نے بھی تو کہا تھا
ہے سیاست سے تعلق تو فقط اتنا سا
کوئی کم ظرف مرے شہر کا سلطان نہ ہو

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام