mushtaq shabab 16

جامۂ احرام زاہد پر نہ جا

سوال ریاست مدینہ کے حوالے سے بنتا تو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر ہادی برحق رحمتہ اللعالمین خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰۖ کی قیادت میں جس ریاست کی بنیاد رکھوائی اس کا مقصد بت پرستی کا خاتمہ اور دنیا میں اپنی حقانیت کی بادشاہی کا قیام تھا۔ اسی لئے جب فتح مکہ کے موقع پر خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرنے کا عمل مکمل ہوا تو اس کے بعد سرزمین عرب پر کوئی بت خانہ باقی نہیں رہا، ہاں یہ ضرور تھا کہ عیسائیت اوریہودیت کے ماننے والوںکو یہ رعایت دی گئی کہ وہ اپنی عبادتگاہیں برقرار رکھ سکتے ہیں اور اپنے اپنے مذاہب کے مطابق عبادت بھی کر سکتے ہیں، ساتھ ہی یہ حکم بھی مسلمانوں کو دیا گیا کہ وہ کسی کے جھوٹے خدا کو بھی برا نہ کہیں مبادا وہ مسلمانوں کے اللہ کی شان میں گستاخی کر بیٹھیں، اس پس منظر میں جب ہم اصلی ریاست مدینہ کے اس خودساختہ ریپلیکا (Replica)کے کردار کا جائزہ لیتے ہوئے حالیہ پیداشدہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں علمائے کرام کے بیانات سے رجوع پر مجبور ہونا پڑتا ہے جن میں درمیان کا راستہ اختیار کرنے کی باتیں کی گئی ہیں، مفتی تقی عثمانی کا جو بیان گزشتہ روز سامنے آیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کو اپنی آبادی والے علاقوں میں عبادت گاہ برقرار رکھنے کا حق ہے،پاکستان جیسے ملک میں جو صلح سے بنا ہے وہاں ضرورت کے مطابق نئی عبادت گاہ بنا سکتے ہیں لیکن حکومت کیلئے جائز نہیں کہ وہ اپنے خرچ پر مندر تعمیر کرے، خاص طور پر ایسی جگہ جہاں ہندو برادری کی آبادی بہت کم ہو، انہوں نے کہا کہ ایسے نازک وقت میں ایسے شاخسانے کیوں کھڑے کئے جارہے ہیں جن سے انتشار پیدا ہونے کے سوا کوئی فائدہ نہیں۔ مفتی تقی عثمانی کے ان خیالات کے بعد جب صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو اس حوالے سے ان کے بیان کا یہ حصہ بہت اہمیت اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے کہ جن علاقوں میں غیرمسلموں کی آبادی بہت کم ہو وہاں متعلقہ کمیونٹی کیلئے عبادتگاہ بنانے کی اجازت کیوں کر دی جاسکتی ہے، ادھر سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے جہاں سابق اور موجودہ حکومت کے حامیوں اور مخالفین میں نئی بحث چھڑی ہوئی ہے اور ایک دوسرے پر تابڑتوڑ ”حملے” کئے جارہے ہیں تاہم بعض پوسٹوں میں کچھ حقائق بھی سامنے آرہے ہیں اور اسلام آباد میں ایک پرانے مندر کی تصاویر بھی وائرل ہورہی ہیں جس کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ اس پرانے مندر میں کبھی کبھار ایک دو لوگ آتے جاتے رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس کی وجہ اس علاقے میں ہندوؤں کی نہایت قلیل تعداد ہوسکتی ہے، گویا مفتی تقی عثمانی کی یہ دوسری بات بھی اہمیت اختیار کرجاتی ہے کہ جہاں ہندو برادری کی آبادی ہی اتنی نہ ہو جس کیلئے مندر تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے، وہاں ایک نئے مندر کی تعمیر اور وہ بھی سرکاری سطح پر کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔
یہاں ایک اور حقیقت کی جانب اشارہ کرنا بھی لازمی بنتا ہے کہ مسلمان جہاں نئی بستیاں، سوسائٹیاں، آبادیاں بساتے ہیں وہاں زیادہ تر مساجد وہ اپنے خرچ سے قائم کرتے ہیں، مساجد کو تکمیل کے بعد یونہی نہیں چھوڑ دیا جاتا بلکہ اس کی تزئین وآرائش کا کام مسلسل جاری رہتا ہے، پھر مساجد کیلئے جاری اخراجات بھی وہاں کے رہائشی افراد چندہ سسٹم سے برداشت کرتے ہیں۔ ملک بھر میں البتہ جہاں جہاں بھی مساجد موجود ہیں ان کو سرکاری طور پر نہ تو بجلی بلوں میں کوئی رعایت دی جاتی ہے، نہ گیس کے بلوں میں، اُلٹا ٹیلیویژن سیٹ رکھے جانے کے حوالے سے عوام سے وصول کی جانے والی فیس مساجد سے بھی بجلی بلوں میں وصول کی جاتی ہے جس پر بارہا حکومت کی توجہ دلانے کی تمام تر کوششیں ماضی میں ناکامی سے دوچار ہو چکی ہیں۔ تاہم اب معلوم نہیں کہ اس حوالے سے کیا صورتحال ہے۔ سوال پھر وہیں آن کھڑا ہوا ہے کہ مندر بنانے کی اجازت میں کوئی قباحت نہیں مگر کچھ اصول وضوابط بھی ہونے چاہئیں، اور جب ایک مندر پہلے ہی سے وہاں موجود ہے تو زیادہ سے زیادہ اس کی تزئین وآرائش کر کے اسے متعلقہ کمیونٹی کیلئے فعال بنایا جائے نہ کہ ایک اسلامی ریاست کی دعویدار مملکت میں اسلامی شعائر کے منافی بت کدہ تعمیر کر کے اسلام کے اصولوں کی نفی کی جائے۔ یہ جو سوشل میڈیا کے خودساختہ ریسلرز ایک دوسرے کی مخالفت میں ڈٹے ہوئے ہیں اور مخالف جماعتوں پر اس حوالے سے الزامات کی گولہ باری کر رہے ہیں ان سے عرض ہے کہ ذمہ دار کوئی بھی ہو اسے قیامت کے دن اپنے کردار کا جواب دینا ہے، تاہم اصل مسئلہ ایک ایسی جگہ پر مندر کے قیام کا ہے جہاں ہندو برادری کے گنتی کے ڈیڑھ دوسو افراد سے زیادہ کی آبادی ہے ہی نہیں اور ایک مندر پہلے ہی موجود ہے تو ہندو برادری اسے ہی قابل استعمال بنا کر فعال کرنے کی زحمت کیوں نہیں کرتی، اس حوالے سے مفتی منیت الرحمن کی گزشتہ روز پریس کانفرنس میں کئے گئے مطالبے پر بھی غور لازمی ہے جنہوں نے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کا فیصلہ واپس لینے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 1450سال کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی کہ اسلامی حکومت نے بت کدہ بنایا ہو، یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ بھارت میں تو مسلمانوں کی عبادت گاہیں مسمار کی جارہی ہیں اور انہیں جلایا جا رہا ہے مگر اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں سرکاری سرپرستی میں بت کدے تعمیر کئے جارہے ہیں،
جامۂ احرام زاہد پر نہ جا
تھا حرم میں لیک نامحرم رہا

مزید پڑھیں:  جائیں تو جائیں کہاں ؟