logo 27

تاجر برادری تعاون کا مظاہرہ کرے

پشاور کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کورونا کی روک تھام کیلئے وضع ایس او پیز پر عمل درآمد نہ کرنیوالے متعدد تجارتی مراکز کو سیل کرنا وہ آخری حربہ رہ گیا تھا جو انتظامیہ بامرمجبوری اختیار کرنے پر مجبور ہوئی تاکہ تاجروں کو سنجیدگی سے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے پر راغب کیا جا سکے۔امر واقع یہ ہے کہ تاجربرادری اور ان کے نمائندے کاروبار کھولنے پر اصرار کرتے رہے لیکن جب ان کے وعدے اور ان سے مشاورت کے بعد کاروبار کھولنے کی اجازت دی گئی تو حفاظتی تدابیر پر عملدرآمد کی ذمہ داری سے احتراز کرتے ہیں جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی بہتر ہوگا کہ تاجر برادری انتظامیہ سے تعاون کرے اور ایسی نوبت نہ آنے دے کہ انتظامیہ کو سخت فیصلے کرنے پڑے۔
پولیس پر ایک اور الزام
ایک ایسے وقت میں جب پولیس کا کردار پورے صوبے اور ملک میں زیربحث ہے، تہکال کے واقعے کی تحقیقات ہورہی ہیں، پولیس حکام سے اس بے احتیاطی کی توقع نہیں کی جاسکتی بہرحال قابل اطمینان امر یہ ہے کہسی سی پی او نے سوشل میڈیا پر خاتون کی وائرل ہونے والی ویڈیو کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ایس ایس پی آپریشنز کو تین روز کے اندر اندر انکوائری کر کے حقائق سامنے لانے کی ہدایت کی ہے۔ حیات آباد کی رہائشی نے پولیس سٹیشن تاتارا اور بھانہ ماڑی کے ایس ایچ اوز پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے ان کے گھر پر حملہ کیا اور ان کے گھر آئی مہمان خاتون اور بچوں کو بنا وارنٹ لے گئے۔ اگریہ واقعہ سچ نکلا تو اس سے اس امر کا اظہار ہوگا کہ پشاور پولیس نے تہکال کے واقعے سے کوئی سبق سیکھا اور نہ ہی پولیس گردی سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہے۔ پولیس ہمارے معاشرے کا حصہ ضرور ہے لیکن اس سے مختصر مدت کے دوران دوسری لاقانونیت کے مظاہرے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ تہکال کے واقعے کے بعد بعض اضلاع اور ڈویژنز کے سربراہوں نے پولیس کو قطار میں کھڑا کر کے قانون کی پاسداری واحترام کا جودرس دیا تھا اس کے اعادے کی ضرورت ہے۔توقع کی جانی چاہئے کہ تحقیقات کے بعد حقائق کی روشنی میں انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں گے اور اگر خاتون الزام ثابت نہ کرسکے تو ان کیخلاف بھی کارروائی ہوگی۔پولیس کو اس طرح کے طرز عمل سے گریز کرنا چاہئے جو الزامات کا باعث بنیں۔ خیبرپختونخوا پولیس کے حوالے سے تہکال کے واقعے کے بعد جو تاثرات قائم ہوچکے ہیں اس میں تبدیلی لانے کیلئے پولیس کو عوام سے خاص طور پر خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہئے تاکہ عوام خیبرپختونخوا پولیس کے روئیے میں تبدیلی محسوس کریں اور اس کے پابند قانون اور احترام آدمیت کے معترف ہوجائیں۔
کھیل کامیدان یا مویشی منڈی
ضلع بنوں کے انٹر نیشنل کھلاڑیوں، سپورٹس تنظیموں کے عہدیداروں اور قومی سطح کے کھلاڑیوں کا کرم سپورٹس گرائونڈ کو مویشی منڈی میں تبدیل کرنے کیخلاف بنوں پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ قابل توجہ امر ہے۔انتظامیہ کی جانب سے کھیلوں کے میدان کے تحفظ اور کھلاڑیوں کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی بجائے مویشی منڈی میں تبدیل کرنے کا رویہ قابل مذمت ہے جس کا اعلیٰ حکام کو نوٹس لینا چاہئے۔نوجوانوں میں صحت مند سرگرمیوں کے فروغ اور کھیلوں کی سہولتوں کی فراہمی کیلئے حکومت خطیر رقم خرچ کر رہی ہے جسے ضائع کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''