4 120

جامہ احرام زاہد پر نہ جا

وہ گزرتے گزرتے ایک بہت ہی خوبصورت بنگلے کے سامنے رکا اور بنگلے کے باہر رکھے گملے گننے لگا، کیا کر رہے ہو، گملے کے چوکیدار نے آگے بڑھ اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے اس سے پوچھا۔ جی، جی میں یہ گملے گن رہا ہوں، تمہیں معلوم نہیں کہ یہاں کی کسی چیز کو گننا یا اس کی تصویر لینا جرم ہے، جرم کا نام سنتے ہی بھولے باچھا پر کپکپی طاری ہوگئی، کیسا جرم، میں نے کوئی جرم نہیں کیا جیسی بات کرنے کی بجائے بھولا باچھا بڑی سادگی سے کہنے لگا، اچھا یہ جرم ہے تو اس جرم کی کیا سزا ہوگی، تمہیں جرمانہ بھرنا پڑے گا، چوکیدار نے بھولا باچھا کی سادگی یا اس کے بھول پن کو بھانپتے ہوئے جواب دیا، جر مانہ؟ کتنا جرمانہ بھرنا پڑے گا مجھے؟ جتنے گملے گنے ہیں اتنا جرمانہ دینا ہوگا مجھے، 20روپے گملہ کے حساب سے، کتنے گملے گن چکے ہو تم، چوکیدار نے ایک بار پھر اپنی مونچھوں کو تاؤ دے کر کہا، جی جی میں نے صرف پانچ گملے گنے، پانچ گملے، تو اس کا مطبل یہ ہوا کہ ویھ پنجے سو، تم سور وپے جرمانہ ہوچکے ہو، لاؤ سو روپے کا پھاپھا، چوکیدار نے اس کی جانب ہاتھ بڑھا کر کہا، دیتا ہوں دیتا ہوں، میری کلائی سے مت پکڑو، یہ لو سو روپے کا نوٹ، بھولے باچھا نے اپنی جیب سے میلا کچیلا سو کا نوٹ نکالا اور بنگلے کے چوکیدار کے ہاتھ پر رکھ دیا، ہم بھی دور کھڑے یہ سارا تماشا دیکھ دیکھ کر سوچ رہے تھے کہ کتنا چالاک اور بے ضمیر ہے بنگلے کا چوکیدار جو اپنی تنخواہ کے علاوہ اوپر کی آمدن بھی سادہ لوح لوگوں کو لوٹ کر کما رہا ہے لیکن اس کا کیا قصور، ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو تنخواہ لینے کے علاوہ کسی کا جائز یا ناجائز کام کرتے وقت خوف خدا کو طاق پر رکھ کر غرض مندوں کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرتے رہتے ہیں، آخر یہ چوکیدار بھی تو اس ہی معاشرے کا حصہ ہے جس نے اپنے چوکیدار ہونے کی حیثیت سے فائدہ اُٹھا کر کسی سادہ لوح یا بھولے باچھا کی جیب سے سو روپے کا نوٹ مکھن سے بال کی طرح نکال کر جیب میں رکھ لیا، اگر اس کے دل میں ذرا سا بھی خوف خدا ہوتا تو وہ ایسا ہرگز نہ کرتا، میں سمجھتا ہوں کہ کسی کو لوٹنے والے سے زیادہ قصور لٹنے والے کا ہوتا ہے، اگر لٹنے والا چاک وچوبند رہنے کا فریضہ اپنائے رکھے، احتیاط یا پرہیز علاج سے بہتر ہے کے فارمولے پر عمل کرتا رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ کوئی کسی کو اتنی آسانی سے لوٹ سکے یا کوئی کی کسی آمدن یا محنت کی کمائی کا ناجائز حصہ دار بن سکے، مگر اس کا کیا کیا جائے کہ اس منڈی میں ہر چیز بکاؤ مال ہے، اگر آپ کسی سرکاری یا خیراتی کلینک میں جاکر اپنے کسی تکلیف کا مداوا کرنا چاہیں تو ڈاکٹر آپ کی جانب وہ توجہ نہیں دے گا جو توجہ وہ اپنے پرائیویٹ کلینک میں آنے والے مریضوں کو دیتا ہے۔ تھانہ، کچہری، ہسپتال حتیٰ کہ تعلیمی اداروں اور مسجد مندروں میں بھی کچھ دو کے بدلے کچھ لو کا اصول کارفرما ہے، لیکن بھولے باچھا اور بنگلے کے چوکیدار کا معاملہ لوٹنے والوں اور لٹتے رہنے والوں سے قدرے مختلف تھا، بھولا باچھا تو اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کیلئے گملے گن گن کر ہلکان ہو رہا تھا لیکن چوکیدار ماما نے اپنے منصب کے علاوہ اپنی مونچھوں کے تاؤ اور کندھے پر لٹکی بندوق کے منظرنامہ کو بھولے باچھا کی جیب سے سو کا نوٹ نکالنے کیلئے کیش کر لیا، بھولا باچھا جب سو کا نوٹ چوکیدار کے حوالہ کرکے وہاں سے روانہ ہوا تو ہم بھی اس کے پیچھے ہولئے اور جب کسی مناسب مقام پر اس کو آواز دیکر روکا تو وہ گھبرائی ہوئی نظروں سے ہماری جانب دیکھنے لگا، تم نے چوکیدار کو سو روپے کا نوٹ دیا، جی میں نے جرمانہ بھرا، بھولے باچھا نے جواب دیا، کس جرم کا جرمانہ، میں نے گملے گن لئے تھے، ارے بے وقوف اس نے تمہیں ٹھگ لیا ہے، میں نے بھولے باچھا کو اس کی سادگی کا طعنہ دیتے ہوئے کہا جس کے جواب میں وہ کہنے لگا کہ مجھ کو کون ٹھگ سکتا ہے، ٹھگ تو میں نے اسے لیا ”وہ کیسے ہم نے اس سے پوچھا جس کے جواب میں کہنے لگا، میں نے 25گملے گنے تھے، لیکن اس کو جرمانہ صرف 5گملے گننے کا دیا، اس کا یہ جواب سن کر ہم ”ارے ارے ارے” کے سوا کچھ بھی تو نہ کہہ سکے، جی ہاں اس نگری میں وہی بندہ دھوکا کھاتا ہے جس کو دھوکا کھانے کا احساس تک نہ ہو، ہم روزانہ ایسے بے شمار دھوکے کھاتے رہتے ہیں، لیکن اس میںدھوکا دینے والوں کا قصور کم اور دھوکا کھانے والوں کا قصور زیادہ ہوتا ہے۔ اب ہر جگہ تو مشتری ہوشیار باش کا کا اشتہار چسپاں نہیں کیا جاسکتا نا اور نہ ہی یہ بات دہرا دہرا کر کہی جاسکتی ہے کہ
جامہ احرام زاہد پر نہ جا
تھا حرم میں لیک نہ محرم رہا

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس