آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کیلئے بجلی14فیصدمہنگی کرنے اورسبسڈی محدودکرنے کی تیاریاں شروع کرنے کی اطلاعات پر عوام میں تشویش کی لہر دوڑنا فطری بات ہے۔ عوام کیلئے بجلی پرتمام جنرل سبسڈیزواپس لینے،14فیصد تک مہنگی کرنے اور 5 کیٹگریز کے رعایتی نرخ محدودکرنے کافیصلہ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق امر ہوگا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ اقدام آئی ایم ایف کے رکے ہوئے پروگرام کی بحالی کیلئے انتہائی اہم ہے، یہ فیصلہ ضروریات کے متعلق سماجی واقتصادی سروے کئے بغیر کیا گیا ہے۔وزیراعظم عمران خان سبسڈیز کے حوالے سے میکنزم کوحتمی شکل دینے کی پہلے ہی ہدایت کرچکے ہیں۔ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتے کرتے اب اس حد تک آگئی ہے کہ صورتحال عوام کیلئے ناقابل برداشت ہوگئی ہے، مہنگائی اور آئے روز اشیاء کی قلت اور کورونا سے پیدا شدہ حالات، بیروزگاری ‘ کاروبار کا خاتمہ یا بری طرح متاثر ہونا اور منافع میں کمی جیسے حالات میں جہاں عوام کو ریلیف کی ضرورت ہے حکومت عام آدمی سے بجلی کے بلوں میں واجبی ریلیف بھی واپس لے رہی ہے حالانکہ بجلی کی قیمت سے زیادہ ٹیکس اور حکومتی محصولات اب بھی بجلی بل میں شامل ہیں۔ حکومت اگر بجلی بلوں میں اضافہ پر تل ہی گئی ہے تو پھر بجلی کی قیمت کے مساوی ٹیکسوں کو واپس لیا جائے جس کی ادائیگی اب عوام کے بس سے باہر ہوگئی ہے۔
سرکای رہائش گاہوں کا جائز استعمال یقینی بنانے کی ضرورت
خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کا پختونخوا ہائوس اسلام آباد میں کمرے نہ ملنے اور سرکاری ریسٹ ہائوسز میںان سے ہزاروں روپے لینے کو توہین قرار دینا مناسب نہیں، البتہ پختونخوا ہائوس میں ایک ایک بیوروکریٹ کو10،10کمرے دئیے جانے کا عمل بھی حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے جس کی نشاندہی اسمبلی کے فلور پر کی گئی ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ اراکین اسمبلی ہوں یا بیورو کریٹ یا پھر ان کے عزیز واقارب یا بالا ست طبقات ان کو صرف ریسٹ ہائوسز ہی میں نہیں تھانے کچہری’ سفر و حضر’ علاج معالجہ ہر جگہ ترجیح اورسہولیات میسر رہی ہیں۔ اراکین اسمبلی کوکسی سہولت کیلئے ادائیگی کو اپنی توہین قرار دینا ان کی اس ذہنیت کاعکاس ہے جو وہ اکثر و بیشتر روا رکھتے ہیں اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے عوامی نمائندوں کا مزاج اور مطمح نظر کیا ہے، کسی بیورو کریٹ کو بھی اس کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے کہ وہ اپنے استحقاق اور مراعات سے تجاوز کرے۔ سرکاری رہائش گاہوں میں ٹھہرنے اور ادائیگی کا جوطریقہ کار موجود ہے اس کی سختی سے پابندی کرائی جائے اور سہ ماہی بنیادوں پر ان رہائش گاہوں کے استعمال و وصولی کا آڈٹ کرایا جائے۔
بنکوں میں ناکافی عملہ’ رش کی بڑی وجہ
پنشن کے حصول، یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی اور چیک کیش کرانے کیلئے پشاور کے بینکوں کے باہر لگی قطاروں میں کھڑے شہری کورونا سے بچائو کے ضمن میں احتیاطی تدابیر نہ تو اختیار کرتے ہیں اور نہ ہی محدود جگہ میں ایسا ممکن ہے۔ہمارے رپورٹر کے مطابق پشاور کے بیشتر بینکوں کے باہر بزرگ اور عمر رسیدہ لوگوں سمیت بڑی تعداد میں شہریوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ بینک انتظامیہ کی جانب سے بینک کے باہر کھڑے شہریوں کیلئے کوئی سہولت فراہم نہیں، صرف چند بینکوں کی انتظامیہ بینک سے باہر سماجی فاصلہ یقینی بنانے کیلئے معقول انتظامات کی زحمت کرتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کمرشل بینکوں کے باہر قطاریں لگنے کی وجہ صارفین کی تعداد میں اضافہ اور حفاظتی تدابیرکی پابندی نہیں بلکہ بینکوں میں ایک ایک فرد سے کئی کئی کام لینا، عملے کی کمی اور نا تجربہ کار عملے کی کم تنخواہوں پر تقرری کرکے کام چلانا ہے جس کے باعث ایک صارف کو بھگتانے میں ضرورت سے زائد وقت لگ جاتا ہے، جس سے بینکنگ کا معیار متاثر ہونے کیساتھ ساتھ صارفین کیلئے بھی مشکلات کا باعث ہے۔ بینکوں میں پنشن اور بلوں کی ادائیگی کے موقع پر اور مہینے کی ابتدائی تاریخوں میں عملے کی کمی نہ ہو تو اس طرح کی صورتحال پیش نہیں آئے گی۔ سٹیٹ بینک کو خیبر پختونخوا میں بینکنگ کے شعبے میں انحطاط اور صارفین کی مشکلات کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے اور معائنہ ٹیمیں متحرک کرکے خلاف ورزی کے مرتکب بینکوں کو جرمانہ کرنے اور قوانین کے مطابق سزا سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔
فوری توجہ طلب مسئلہ
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال چترال میں طبی آلات کی خرابی درست نہ کرنے پر عوامی نمائندوں کا احتجاجی مظاہرہ قابل توجہ امر ہے۔ ہمارے نمائندے کے مطابق گزشتہ دو سالوں سے ڈی ایچ کیو ہسپتال میں ڈائیلاسز مشینیں خراب پڑی ہیں جن پر چھ سات لاکھ روپے خرچ کرنے پر یہ فنکشنل ہو سکتی ہیں مگر ابھی تک سات لاکھ روپے خرچ کرکے اسے ٹھیک کرکے مریضوں کو سہولت دینے کی بجائے انہیں چترال سے طویل سفر کرکے پشاور جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ صوبے میں صحت کی بہتر سہولتوں کی دعویدار حکومت اور محکمے کیلئے اس سے بڑھ کر لمحہ فکریہ کیاہوگا کہ چترال کے دو اضلاع کے لوگ عملے کی موجودگی کے باوجود محض مشینوں کی عدم مرمت کے باعث علاج کی سہولت سے محروم ہیں اور گردے کے مریضوں کو پشاور آکر مستقل ڈیرہ ڈال کر اپنا علاج کرانا پڑتا ہے۔ جتنا جلد ممکن ہوسکے مشینوں کی مرمت کرائی جائے نیز اس امر کی متعلقہ حکام سے جواب طلبی ہونی چاہئے کہ اس بنیادی ضرورت پر توجہ دینے میں دو سال کی تاخیر کیوں ہوئی اور اس کا ذمہ دار کون ہے۔ صوبے میں غفلت و لاپرواہی کی یہ پہلی مثال نہیں ہوگی بلکہ صوبہ بھر میں اس طرح کی صورتحال کی رپورٹ مرتب کی جائے اور معطل سہولتوں کی بحالی میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔
Load/Hide Comments