ذوالفقار علی بھٹو ایک پُرجوش اور انقلابی انسان تھے۔ انہیں سیاست میں تنہا پرواز اور اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کا موقع ملا تو پھر ان کی اُنگلیاں سیاست کے ”کی بورڈ” پر مسلسل رقص کرتی رہیں۔ تاشقند کا راز ان کا ایک سیاسی کارڈ تھا جو ان کی موت تک ان کی جیب سے باہر نہیں آیا مگر انہوں نے تاشقند کا راز افشا کرنے کے نام پر ایوب خان کو زچ کئے رکھا۔ بھٹو یہ تاثر دیتے رہے کہ پینسٹھ کی جنگ کے بعد تاشقند میں ایوب خان اور لال بہادر شاستری کے درمیان ایک ایسی ڈیل ہوئی جو ملک وقوم اور کشمیر کے مفاد میں نہیں۔ انہوں نے اپنی سولو فلائٹ اور پیپلزپارٹی کی بنیاد اسی نعرے پر رکھی۔ تاشقند کے راز کے نام پر انہوں نے قوم کو متجسس اور اپنی جانب متوجہ رکھا۔ یہ اسلوب سیاست کے داؤپیچ کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یوں وقت نے ثابت کیا کہ تاشقند کا راز وہی تھا جو معاہدے میں درج تھا مگر بھٹو صاحب نے اس معاہدے کو راز بنا کر اپنی سیاست کیلئے آسانیاں پیدا کیں۔ مولانا فضل الرحمان نے تاشقند کے راز کے سٹائل میں ہی کہا ہے کہ چوہدری برادران کو کہتا ہوں کہ ان کے پاس میرے حوالے سے جو امانت ہے اسے سامنے لے آئیں۔ اس ذومعنی قسم کے بیان میں نہ صرف خود مولانا ملکی سیاست میں اہم ہوئے ہیں بلکہ وہ چوہدری برادران کو عوام اور میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا بیٹھے ہیں۔ اب عوام اور میڈیا متجسس ہیں کہ مولانا کے حوالے سے چوہدری برادران کے پا س کیا امانت ہے؟ وہ کچھ بھی ہو یہ نقد وجنس والا معاملہ نہیں بلکہ کسی زبانی یا تحریری یقین دہانی کا ذکر ہوگا۔ اب جب تک چوہدری برادران یہ امانت عوام تک منتقل نہیں کرتے عوام کا متجسس اور حیران رہنا یقینی ہے۔ مولانا فضل الرحمان ان دنوں حکومت کیخلاف منقا زیرپا ہیں۔ ایک پلان کے بعد دوسرا اور ایک تحریک کے بعد دوسری گویا وہ حکومت کو لمحہ بھر برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے اپنا دھرنا پراسرار انداز میں شروع کیا۔ سٹیج کو پوری قوت سے گرمائے رکھا مگر پھر پراسرار انداز میں کارکنوں کو رخت سفر باندھنے کا حکم دیا۔ اس دوران ان کی ملاقات سیاست کے معروف کرداروں چوہدری برادران، چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی سے ہوئی۔ اس ملاقات میں کچھ رازونیاز ہوئے، سرگوشیاں ہوئیں اور یہی راز ونیاز دھرنے کے خاتمے کا جواز بن گیا۔ چوہدری برادران کا اصرار ہے کہ دھرنا ختم کرانے کے پیچھے فقط ان کا جذبۂ خیرسگالی تھا مگر مولانا امانتوں اور رازوں کی باتیں کرکے اس معاملے کو تہ درتہ اور پرپیچ بنا رہے ہیں۔ اس سے کچھ ہو نہ ہو عمران خان کے شیشۂ دل میں بال آرہا ہے۔ چوہدری برادران اور عمران خان کا رشتہ وپیوند پہلے ہی کوئی خوشی کا سودا نہیں حالات کا جبر تھا۔ چوہدری برادران کی سیاست کی اساس اور محور ”مٹی پاؤ” ہے یعنی کھایا پیا ہضم اور نئی مفاہمانہ کہانی کا آغاز۔ عمران خان کا اسلوب سیاست اور تکیہ کلام ”آخر تک چھوڑوں گا نہیں”۔ یہ دونوں اسلوب جداگانہ ہی نہیں متضاد بھی ہیں۔ چوہدری صاحبان اس نظام کے سر کا تاج ہیں جس کیخلاف لڑتے لڑتے عمران خان یہاں تک پہنچے اور اب بھی وہ اس راہ سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور چوہدری برادران کیلئے عمران خان بہت سوں کی طرح اس نظام میں نیا آدمی اور اجنبی انسان اور نامانوس چہرہ۔ جو نجانے کس دیس اور کس دنیا سے آکر رنگ میں بھنگ ڈال گیا۔ دومختلف مزاجوں مختلف ماضی اور مختلف سوچوں والے عمران خان اور چوہدری برادران ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جبر سہہ رہے ہیں۔ دونوں کو موقع ملے تو ایک دوسرے کو پٹخنی دینے میں لمحوں کی دیر نہ کریں مگر بے بسی بھی کسی کیفیت کا نام ہے۔ عمران خان اور چوہدری برادران کے اعتماد کی دیوار پہلے ہی کچی اور دراڑوں سے بھری تھی مولانا کی ”امانت” کے بوجھ تلے یہ دیوار مزید لرزتی جارہی تھی۔ یہ تو فی الحال خیریت رہی کہ چوہدری برادران اور حکومت کے درمیان صلح ہوگئی۔ ہنسی اور خیرسگالی کے جذبات کے تبادلے ہوئے۔ چوہدری برادران کے پاس مولانا کی امانت کیا ہے؟ شاید یہی کہ چوہدری برادران نے مولانا کو واپسی کے راستہ دینے کیلئے کان میں یہ بات ڈال دی کہ فلاں صاحب نے پیغام دیا کہ چھ ماہ بعد عمران خان اقتدار سے باہر اور مولانا اس کشتی کے سوار ہوں گے، اسلئے دھرنا جاری رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ کی بات سن کر نوٹ کر لی گئی ہے۔ فلاں صاحب کون ہیں؟ یہ فریقین کو ہی علم ہوگا۔ مولانا کی امانت کی ساری حقیقت یہی ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ مولانا حکومت کو بیرونی حملے اور یلغار کے ذریعے تو ختم نہ کر سکے اب اس عمارت کی اینٹوں کو اندر سے سرکانے سے یہی کام لینا چاہتے ہیں۔ کائیاں، گھاک اور سیاست کے جادوگر ”غیروں” اور بدکے ہوئے ”اپنوں” کے سہارے پر کھڑی حکومت کو گرانا ”مرے کو مارے شاہ مدار” والی بات ہے۔ عمران خان کی سیاست اور تبدیلی کا اسقاط ان کی سیاست کو ردعمل سے بھر دے گا اور پھر ملکی سیاست استحکام کو تادیر ترستی رہے گی۔خود عمران خان بند فائلوں کے بوجھ سے آزاد انسان ہیں اور وہ جب بھی جائیں گے اس بوجھ سے آزاد ہو کرجائیں گے۔ بند فائلوں کے بوجھ سے آزاد انسان کے طور پر وہ ایک جنگجو کی طرح پلٹ کر حملے کرتے رہیں گے اور عمران خان خود کسی حکومت کیلئے نہ صرف آج کے ”مولانا” بن جائیں گے بلکہ اس سے بھی خطرناک ہوں گے۔ عمران خان کی سیاست کو صرف اسی وقت نقصان پہنچے گا جس دن وہ بطور وزیراعظم ذاتی طور پر کسی کمیشن اور کرپشن اور کاروباری سرگرمی میں ملوث پائے جائیں گے۔ یہ ان کی فکر اور فلسفے اور برسوں کی سیاست کی موت کا دن ہوگا۔