ہم ملتانیوں کا سب سے بڑا مسئلہ خود ملتانی ہونا ہے، اپنے جنم شہر گوٹھ قصبے سے سب کو خاص اُنسیت ہوتی ہے لیکن ملتانی اس حوالے سے سب سے نرالے ہیں۔ ملتان سے چند میل یا چند ہزارہا میل دور ملتانی کی حالت ایک جیسی ہوتی ہے۔ دوعشرے اُدھر جب میں آخری بار ایران گیا تو تہران اور پھر قم المقدس میں ملنے والے ملتانی طلباء نے ہاتھوں ہاتھ لیا ان کی محبت (جودرحقیقت ملتان سے محبت تھی) اور شخصی احترام نے خود مجھے بھی رُلا دیا۔ تہران یونیورسٹی میں اُس وقت زیرتعلیم صبیح حیدر اور ملک غلام عباس لگ بھگ دوبرس سے تعلیمی مصروفیات کی بدولت وطن نہیں جا سکے تھے۔ ان دونوں نے کرید کرید کر مجھ سے ملتان اور ملتانیوں کا حال احوال ایسے دریافت کیا جیسے صدیوں سے بچھڑے ہوئے ہوں۔ حق تعالیٰ مغفرت فرمائے ملک غلام عباس چند برس قبل دنیائے سرائے سے پڑاؤ اُٹھا کر شہر خموشا میں جا بسے ہیں اور صبیح حیدر سے دوہزار چھ میں آخری ملاقات راولپنڈی میں ہوئی جب وہ چند دن بعد پی ایچ ڈی کیلئے امریکہ جارہے تھے۔ تہران میں صبیح حیدر اور ملک غلام عباس ہفتہ بھر کے قیام کے دوران روزانہ ملنے کیلئے آتے اور ہم ملتان کا ذکر کرنے بیٹھ جاتے۔ تقریباً روزانہ ہی میں انہیں یاد دلاتا کہ میں اب ملتان میں نہیں لاہور میں مقیم ہوں مگر ان کا جواب ہوتا سئیں! اپ ابھی تازہ تازہ ملتان سے ہو کر تو آئے ہیں۔ خونی برج کے دال مونگ، توے والی مچھلی، پاک گیٹ کے آلو چھولے اوجڑی اور سری کا سالن، حرم گیٹ کی چانپیں۔ دولت گیٹ کا فالودہ، ملتانی ڈولی روٹی اور دوسرے پکوانوں کا ذکر کرتے ہوئے ان دونوں کی آنکھیں بھیگ جاتیں۔ اچھا یہ جذبات اور یادیں تقریباً ہر ملتانی کا اثاثہ ہیں، باوجود اس کے کہ تحریر نویس نے تعلیمی مدارج اور ابتدائی محنت ومشقت کے ماہ وسال کراچی میں بیتائے۔ پھر روزگار شہر شہر لئے پھرا۔ لاہور، پشاور اور راولپنڈی، درمیان میں چند سال اپنے آبائی شہر میں بسر کرنے کے بعد ایک بار پھر لاہور میں ہوں۔ یوں اگر حساب لگائیں تو 62سالوں میں مشکل سے13سال ہی جنم شہر میں گزارے ہوں گے مگر اندر کا ملتانی نہ صرف زندہ ہے بلکہ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ملتان سے اس کی محبت جوان ہوتی جارہی ہے۔ پچھلے چند برسوں سے جب سے ملتانی منڈلی اور ملتانی سنگت کے نام سے دوستوں کے دو اکٹھ جنم شہر میں موجودگی پر منعقد ہوتے ہیں ان میں دنیا جہان کی باتوں اور بحثوں کیساتھ ساتھ ذکر ملتان واجب ہے۔ اب بھی پچھلے دنوں ملتانی منڈلی کی ایک نشست میں جو اس کے تاسیسی میزبان خاور حسنین بھٹہ کے ہاں منعقد ہوئی معروف قانون دان شرافت رانا لاہور سے خصوصی طور پر مدعو کئے گئے دوستان عزیز، ساجد رضا تھہیم ایڈووکیٹ، حافظ صفوان، طارق شیراز، کاشف حسین سندھو کیساتھ میزبان اور فقیر راحموں کے سوالات تھے اور رانا صاحب کے جواب۔ ملتانی منڈلی یوں تو وسیب زادوں پر مشتمل ہے مگر ہمارے نوجوان دوست کاشف حسین سندھو ملتان میں جنم لینے کے باوجود پکے پیٹھے پنجابی قوم پرست ہیں۔ پنجاب کی تقسیم کے دُکھ میں نڈھال اس دوست کی خدمت میں ہر ملاقات پر یہ عرض کرنا پڑتا ہے کہ حضور! ہم سرائیکی تقسیم پنجاب نہیں بلکہ رنجیت سنگھ کے دور میں مقبوضہ بنائے گئے سرائیکی وسیب کی ایک قومی اکائی کے طور پر بحالی چاہتے ہیں۔ مگر مہینہ بھر یا چند ماہ بعد ان سے جب دوبارہ ملتانی منڈلی میں ملاقات ہوتی ہے تو وہ پھر ٹھنڈا سانس لے کر کہتے ہیں۔ شاہ جی! پنجاب دی ونڈ دا بڑا نقصان ہونا اے (شاہ جی پنجاب کی تقسیم کا بڑا نقصان ہوگا) ان کی خدمت میں بار دیگر عرض کرنا پڑتا ہے کہ اگر سرائیکی وسیب کو فیڈریشن میں قومی اکائی کا درجہ نہ ملا تو آنے والے برسوں میں اعتدال پسندوں کی گرفت کمزور پڑنے کا خطرہ ہے، ایسا ہوا تو نقصان زیادہ ہوگا۔ملتانی سنگت کے دوست کامریڈ دلاور عباس، اُستاد اور زیرتعمیر کامریڈ منیر الحسینی، کامریڈ ملک ستار، خواجہ ضیاء سمیت چند دیگر احباب نے حسب سابق ملتان ٹی ہاؤس میں نشست جمائی، عصری سیاست، بڑھتی ہوئی مہنگائی، سرائیکی صوبہ کی تحریک مرکزی موضوعات تھے مگر درمیان میں کامریڈ دلاور عباس صدیقی کے عزیزوں کیساتھ پیپلز پارٹی اسلام آباد کی ایک خاتون راہنما کے ویزہ فراڈ کا ذکر بھی ہوتا رہا۔ یورپی ویزوں کے نام پر لوٹ مار کرنے والی اس اسلام آبادی خاتون نے پیپلزپارٹی کو اپنی ڈھال بنا رکھا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ سابق وزیرداخلہ رحمن ملک اور پیپلزپارٹی کے چند دیگر راہنما اس خاتون کی سربراہی میں قائم جعلساز گروپ بارے جانتے ہوئے بھی کارروائی سے گریزاں ہیں۔ ملتانی سنگت کی ایک دن کے وقفہ سے دو نشستیں ہوئیں، پہلی نشست میں جب دو تین نئے شرکاء میں سے ایک خواجہ حبیب نے اس تحریر نویس کا تعارف چاہا تو کامریڈ دلاور عباس بولے یوں تو تعارف طویل ہے مگر آپ کی سہولت کیلئے مختصر تعارف یہ ہے کہ شاہ جی، وعظ والی بی بی سیدہ عاشو بی بی مرحومہ کے صاحبزادے ہیں۔ خواجہ صاحب قدیم ملتانی گھرانے کے فرزند ہیں، انہوں نے جونہی ہماری والدہ مرحومہ کا نام سُنا کافی دیر تک احترام وعقیدت کیساتھ اُن کی دینی وسماجی خدمات کا ذکر کیا، وہ بتاتے رہے کہ کب کب ہماری والدہ محترمہ ان کے خاندان میں وعظ کرنے کیلئے تشریف لاتی رہیں اور کب کب وہ اپنے بچپن میں اپنے گھر کی خواتین کیساتھ بی بی جی کے گھر گئے۔ سنگت کے جو دوست خاندانی طور پر جانتے تھے وہ اماں حضور کی رحلت کے بیس سال بعد بھی احترام کیساتھ ان کا ذکر کر رہے تھے۔ ملتان میں سیدہ عاشو بی بی وعظ والی کا بیٹا ہونا بڑی سعادت سمجھا جاتا ہے۔ اس جذباتی ماحول کو تبدیل کرنے کی پہل ہم نے ہی کی اور کامریڈ کو لوٹنے والے ویزہ مافیا کا ذکر چھیڑ دیا۔ درمیان میں سارے دوست مل کر زیرتعمیر کامریڈ منیرالحسینی کی ہلکی پھلکی کلاس بھی لیتے رہے۔