بس ریپیڈ ٹرانزٹ منصوبے کی تکمیل پر پیشرفت کا جائز ہ لینے کیلئے اعلیٰ سطحی اجلاس کا انعقاد اس تاثر کی سراسر نفی ہے اور صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ کے اس دعوے کے بالکل برعکس ہے کہ
بی آر ٹی کی تکمیل ہوچکی ہے اور اس کا کسی بھی وقت اچانک افتتاح ممکن ہے۔ وزیر اعلیٰ کے زیرصدارت اجلاس میں پیش رفت کاجائزہ لیا گیا جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہوگا کہ بی آر ٹی پر ابھی اتنا مزید کام باقی ہے جس کے جائزے کیلئے اعلیٰ سطحی اجلاس کا انعقاد کرنا پڑا۔اس موقع پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے بی آر ٹی منصوبے کو صوبائی حکومت کا ایک فلیگ شپ منصوبہ قرار دیتے ہوئے تمام متعلقہ محکموں اور اداروں کے حکام کو ہدایت کی کہ منصوبے کی ہر لحاظ سے جلد ازجلد تکمیل کیلئے تمام محکمے اور ادارے اپنے اپنے حصے کی ذمہ داریوں اور کاموں کو فوری طور پر مکمل کریں۔ وزیراعلیٰ نے منصوبے کے جزوی افتتاح کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ منصوبے کا ایک ہی دن اور ایک ہی افتتاح کیا جائے گا جس کیلئے تمام تیاریوں اور انتظامات کو حتمی شکل دی جائے اور فنشنگ کے کام کو جلد مکمل کیا جائے ۔وزیر اعلیٰ کے زیرصدارت اجلاس میں منصوبے کے افتتاح کے کسی تاریخ یہاں تک کہ مہینے کا بھی عندیہ نہ ملنے سے بی آر ٹی کی تکمیل بارے خدشات اور اس حوالے سے کئے گئے ماضی کے وعدوں کے ایفاء نہ ہونے کی صورتحال کاایک مرتبہ پھر تاثر ملتا ہے۔ عوام کو توقع تھی کہ آزمائشی سروس کو باقاعدہ سروس میں تبدیل کیاجائے گا۔ بی آر ٹی کی فزیبلیٹی رپورٹ سے لے کر اس کے نافع و غیر نافع ہونے اور پھر بدعنوانی کے الزامات جیسے معاملات پہلے ہی منہ کھولے مناسب وقت کے منتظر ہیں، دیر یا بدیر اس پر پڑے پردے ہٹنے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت میں تاریخ کے واحد بڑے منصوبے کی تکمیل درتکمیل حکومتی کارکردگی پر سنگین سوالات کا باعث بن چکا ہے۔ ایک اور اعلیٰ سطحی اجلاس میں افتتاح کی تاریخ نہ دینا ازخود اس امر کا ثبوت ہے کہ ابھی عملے کی بھرتی اور بعض تکینکی معاملات نمٹانے، بعض مقامات پر تو ٹریک کے علاوہ کی تعمیرات کی تکمیل جیسے منصوبے ادھورے پڑے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے زیرصدارت اجلاس میں یقینا ان سارے امور کاجائزہ لیا گیا ہوگا لیکن اس سوال کاجواب نہیں دیاگیا کہ اس کی تکمیل آخر کب ہوگی اور بی آر ٹی سروس سے استفادہ کیلئے آخر عوام کو مزید کتنا انتظار کرنا پڑے گا۔
فنڈز مختص کرنے کی ترجیح اور خرچ میں ناکامی
صوبے میں کورونا سے جاری صورتحال میں علاج وسہولیات کے معاملات دگر گوں اور قابو سے باہر ہیں کہ ڈینگی کے پھیلائو کے خطرات کاجادو سر چڑھ کر بولنے لگا ہے۔ ڈینگی پر قابو پانے کے حوالے سے کئی اعلیٰ سطحی اجلاس بھی منعقد ہوئے مگر خطرہ سر منڈلانے پر عقدہ کھلا کہ فنڈز کا اجراء ہی نہیں ہو سکاہے اور نہ ہی ضروری خریداری ہوسکی ہے۔ کورونا وباء کی اچانک آمد علاج و ادویات نہ ہونے پر بے سر وسامانی کے عالم کو نئے تجربے سے دوچار ہونے کاعذر تراش کر توجیہہ پیش کی جاسکتی ہے، ڈینگی کی سالانہ آمد اور اس کے خطرات سے پیشگی آگاہی بروقت تیاری کی متقاضی تھی مگر صورتحال یہ سامنے آئی ہے کہ نئے مالی سال کے دوران ڈینگی مچھروں پر کنٹرول کیلئے زیادہ رقم مختص کرنے کی بجائے محکمہ صحت نے گزشتہ سال کے اخراجات میں بچے فنڈز ہی جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے باعث ڈینگی ایکشن پلان2020ء پر عمل درآمد متاثر ہونے کا خدشہ ہے اور اب2021سے2025تک کیلئے نیا پی سی ون بنانے کی منصوبہ بندی تجویزکی گئی ہے جس پر اگلے سال جولائی کے بعد سے کام شروع ہونے کا امکان ہے ۔اگرچہ وزارت خزانہ و صحت کا قلمدان یکجا ہونے کی کوئی خوبی تلاش نہیں کی جاسکتی اس کے باوجود توقع تھی کہ صحت کے شعبے میں اچانک آنے والے جوار بھاٹے کے تناظر میں دونوں قلمدان سنبھالنے والے مصاحب طب کے شعبے کو اہمیت دیں گے اور ضروری و درکار وسائل مختص کئے جائیں گے مگر وقت آنے پر کام چلائو قسم کی پالیسی اختیار کی گئی۔ سوال صرف وسائل کانہیں ان وسائل کے درست استعمال اور منصوبوں کی تکمیل کابھی ہے اس ضمن میں بھی صوبے میں گزشتہ سال سینتالیس فیصد ترقیاتی بجٹ خرچ کی جاسکی جہاں وسائل کی ضرورت ہوتی ہے وہاں پر بخل سے کام لیا جاتا ہے اور جہاں کیلئے مختص کئے جاتے ہیں وہاں خرچ نہیں ہو پاتے۔ ان معاملات پر سنجیدگی سے غور ہونا چاہئے اور اس امر کو یقینی بنانے پر توجہ کی ضرورت ہے کہ دستیاب وسائل عوام پر خرچ ہوں۔
Load/Hide Comments