tanveer ahmad 13

بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس

کہتے ہیں ہر مسئلہ ایک نہ ایک دن ختم ہو جاتا ہے، انسان کیلئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ وہ پراُمید رہے، پچھلے تین چار مہینوں سے وطن عزیز میں کورونا کا عفریت بے قابو تھا، بہت سی ہلاکتیں ہوئیں، صرف خیبرپختونخوا میں محکمہ صحت کے 26ملازمین جاں بحق ہوئے، جن میں ڈاکٹروں کی تعداد16ہے! اب اس حوالے سے اچھی خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں پندرہ سو سے زیادہ مریض صحت یاب ہوئے ہیں، ہلاکتوں کی تعداد بھی روزبروز کم ہورہی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ وطن عزیز میں کورونا کافی کمزور ہوچکا ہے لیکن پھر بھی احتیاط کی بہت ضرورت ہے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کے باوجود لوگوں کو بہت زیادہ احتیاط سے کام لینا ہوگا، اگر بے احتیاطی کی گئی تو ایک مرتبہ پھر اس کے پھیلنے کا خدشہ ہے۔ کورونا کے حوالے سے سب سے زیادہ عجیب بیانات عالمی ادارہ صحت (WHO) کی جانب سے نشر کئے جاتے رہیں، کبھی کہتے ہیں کہ اگر مریض کا ٹیسٹ مثبت آجائے اور اس میں کسی قسم کی علامات ظاہر نہ ہوں تو پھر اسے دس دنوں بعد قرنطینہ سے باہر آجانا چاہئے۔ اب اسے ٹیسٹ کروانے کی ضرورت بھی نہیں ہے، اس ادارے کی طرف سے تازہ ترین بیان یہ ہے کہ آنے والے ستمبر اکتوبر میں درجہ حرارت میں کمی آتے ہی اس کی تازہ لہر بڑی شدت کیساتھ آئے گی جس کی وجہ سے پوری دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے، اس قسم کے متضاد بیانات کی وجہ سے عام آدمی پریشان ہو کر رہ جاتا ہے، سچ جھوٹ کی تمیز مٹ جاتی ہے، کورونا کی وجہ سے سب کچھ تلپٹ ہوکر رہ گیا، سب سے زیادہ نقصان طلبہ وطالبات کا ہوا، پچھلے تین چار مہینوں سے تعلیمی ادارے بند ہیں، آن لائن کلاسز کا سلسلہ بھی بہت محدود ہے، ہر جگہ نیٹ کی سہولت تو نہیں ہے طلبہ سارا دن سیل فون پر مختلف کھیل کھیلتے رہتے ہیں، فیس بک پر اپنے آپ کو مصروف رکھتے ہیں، سوشل میڈیا پر آنے والی خبروں پر تبصرے چلتے رہتے ہیں، بہت کم طلبہ ایسے ہوں گے جو اپنے نصاب کا مطالعہ کرتے ہوں گے، وفاقی وزیر شفقت محمود کی سربراہی میں منعقد ہونے والا حالیہ اجلاس اس حوالے سے بڑا خوش آئند ہے کہ اس میں سکول کالج ستمبر میں کھولنے کا اعلان کر دیا گیا ہے، صوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس میں ایس او پیز کے تحت امتحانات لینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے، وزرائے تعلیم کانفرنس میں چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے وزرائے تعلیم نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ ہر صوبے کی طرف سے مختلف تجاویز پیش کی گئیں، اس بات پر سب کا اتفاق تھا کہ احتیاطی تدابیر کیساتھ تمام تعلیمی اداروں میں امتحانات دینے کی اجازت بھی دی جائے، یکم ستمبر سے پہلے دو اجلاس منعقد کئے جائیں گے جن میں اس حوالے سے ہر بات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا اور تمام ضروری تفصیلات طے کی جائیں گی، صوبوں سے مشاورت کے بعد تمام تجاویز قومی رابطہ کمیٹی کو بھجوائی جائیں گی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر تعلیمی ادارے کھولنے کی حتمی منظوری دے گا۔ یہ ساری احتیاطی تدابیر اسی لئے اختیار کی جارہی ہیں کہ کورونا کے حوالے سے کوئی بھی حتمی رائے قائم کرنا فی الحال مشکل ہے، اب بھی بہت سے علاقوں سے کورونا کے نئے مریض رپورٹ ہورہے ہیں، مریضوں کے جاں بحق ہونے کی خبریں بھی آرہی ہیں، ہائر ایجوکیشن کمیشن نے تمام یونیورسٹیوں کو تین اگست سے پندرہ اگست تک مرحلہ وار کھولنے کی جوسفارش کی ہے اس میں بھی انہوں نے احتیاط کے پہلو کو مدنظر رکھا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جامعات کو کھولنے کا شیڈول اور حفاظتی اقدامات کی باقاعدہ فہرست جاری کردی ہے جس میں ہر بات تفصیل کیساتھ واضح کی گئی ہے،جسکے مطابق پہلے مرحلے میں تمام فیکلٹی ممبران بشمول دیگر سٹاف اور جامعات کے سال آخر اور ہاؤس جاب والے طلبہ وطالبات یونیورسٹی جا سکیں گے جبکہ آخری مرحلے میں تمام جامعات کو مکمل طور پر کھول دیا جائے گا اور تمام طلبہ وطالبات اپنی اپنی یونیورسٹیوں کو جانا شروع کردیں گے اور اس طرح تمام جامعات میں درس وتدریس کا باقاعدہ آغاز ہوجائے گا۔ جامعہ پشاور میں بھی یونیورسٹی کھولے جانے کے حوالے سے ایک کمیٹی بنائی جاچکی ہے جس کے اب تک دو اجلاس ہوچکے ہیں اُمید ہے کہ پشاور یونیورسٹی کے کھولنے کا بھی جلد اعلان کر دیا جائے گا۔ کورونا کی دہشت ناکیاں اپنی جگہ لیکن بقول شخصے اب ہم نے اس وائرس کیساتھ ہی جینا ہے یونیورسٹی، کالجوں اور سکولوں کا معاملہ اسلئے بھی بہت سنجیدہ ہے کہ ان تمام تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کا سلسلہ گروپس کی شکل میں ہوتا ہے، سب کا ایک ہی کلاس میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنا اسی طرح لیبارٹریز میں گروپ کی شکل میں تجربات کرنا اور پھر اسی طرح ٹرانسپورٹ کے مسائل، اس سارے ماحول کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں حددرجہ احتیاط کی ضرورت ہے، تمام ایس او پیز پر عمل کرنا بہت ضروری ہے بچے ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں۔ اداروں کی طرف سے دی جانے والی ہدایات اپنی جگہ مگر طلبہ وطالبات کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اس حوالے سے بھرپور تعاون کریں کیونکہ اس میں ان کا اپنا تحفظ پوشیدہ ہے۔

مزید پڑھیں:  مسئلہ بلوچستان اور حل