2 226

آئندہ چند سال یونیورسٹیوں کیلئے ہنگامہ خیز

عالمی وبا کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ان سے متعلق بے شمار پیش گوئیاں کی گئیں اور انہی میں سے ایک پیش گوئی یہ بھی ہے کہ وبا ٹلے یا نہ ٹلے اس سے قطع نظر آن لائن تعلیم کا سلسلہ بالخصوص انڈر گریجویٹ سطح پر وبا کے بعد بھی اسی طرح جاری رہے گا۔ بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ آن لائن تعلیم کا رجحان تو پہلے ہی موجود تھا لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے اس طرزِ تعلیم کی صلاحیتوں کو آزمانے کیلئے دباؤ بہت تیزی کیساتھ بڑھا ہے۔ یونیورسٹیاں اور اعلیٰ تعلیم کا شعبہ جس نظام کے تحت کام کرتا ہے اس پر اس کے کونسے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟ کیا یہاں کام کرنے کیلئے عالم گیریت کی گنجائش موجود ہے؟ کیا ہارورڈ، ایم آئی ٹی یا آکسفورڈ جیسی کوئی اعلیٰ یونیورسٹی دنیا کے دیگر حصوں میں بیٹھے بڑی تعداد میں موجود طلبا کو اپنی ڈگریاں دینے پر راضی ہوسکتی ہیں؟ اس سے کم رینکنگ والی یونیورسٹیاں یا ترقی پذیر ممالک کی یونیورسٹیاں کس طرح متاثر ہوں گی؟ چند لوگوں کا ماننا ہے کہ آن لائن تعلیم کی صلاحیت پر کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر بات کی جا رہی ہے۔ آن لائن تعلیم کا سلسلہ تو کورونا وائرس کی آمد سے کوئی ڈیڑھ دہائی پہلے سے چلتا آ رہا ہے اور یہ سلسلہ اعلیٰ تعلیم کی مارکیٹ میں کچھ زیادہ جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔ ابھی تو صورتحال یہ ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث یونیورسٹیوں کے پاس آن لائن تدریسی طریقہ اپنانے کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں بچا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ جیسے ہی یونیورسٹیاں کھلنا شروع ہوں گی تو لوگ ایک بار پھر کمرہ جماعت میں تعلیم حاصل کرنے کے روایتی طریقے کو ہی ترجیح دیں گے۔ رابطہ کرنے کیلئے ٹیکنالوجی بہت تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ اگر صرف چار ماہ پہلے کی بات کی جائے تو ایسے بہت ہی کم لوگ تھے جو زوم یا مائیکرو سافٹ ٹیمز جیسے آن لائن ذرائع سے واقف تھے۔ جب کبھی لوگ آن لائن ملاقات کرنا چاہتے تھے تو وہ اسکائپ کا ہی استعمال کرتے تھے۔ عالمی وبا نے اس رجحان میں بہت ہی قلیل عرصے میں تبدیلی پیدا کردی ہے۔ اب ٹیکنالوجی سے وابستہ کمپنیاں موجودہ آن لائن پلیٹ فارموں میں جدت متعارف کرنے یا پھر پہلے سے بہتر آن لائن مواصلاتی ذرائع متعارف کروانے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔ زوم بہت ہی کم عرصے میں سیکورٹی کو بہتر اور رابطہ آسان بنانے کیلئے متعدد نئے فیچرز متعارف کرواچکی ہے۔ موجودہ آن لائن تدریس کی صلاحیتوں کا موازنہ اگر چند برس پہلے کی صلاحیتوں سے کیا جائے تو دونوں میں بڑا فرق نظر آسکتا ہے۔ شاید اس کی ایک اور اہم وجہ گزشتہ چند ماہ کا وہ تجربہ ہے جس نے لوگوں کو اپنی سہولت اور کام کرنے کے مخصوص طریقوں سے باہر نکال دیا ہے۔ اس نے ہماری کچھ عادتوں کی بیڑیوں کو کمزور کیا ہے اور ہماری نظروں وتخیل پر لگے پردے کو ہٹایا ہے۔ بہت سے لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ رابطہ جس کیلئے انسان کی جسمانی موجودگی لازمی سمجھی جاتی ہے اسے اب بڑی حد تک ورچول گفتگو کے ذریعے ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ یونیورسٹیوں کے حوالے سے یہ سوال پوچھنے کا شاید یہی صحیح وقت ہے۔ اگر ٹیکنالوجی مناسب معیار کی تعلیم فراہمی کا موقع دے سکتی ہے تو پاکستان میں دو سو یونیورسٹیوں کی کیا ضرورت ہے؟ یا پھر ہمیں بس چند بڑی یونیورسٹیاں ہی قائم کرنی چاہئیں؟ کیا اعلیٰ معیار کی حامل یونیورسٹیاں چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں تک اپنا دائرہ کار وسیع کرپائیں گی؟ اس قسم کی توسیع کو ممکن بنانے کیلئے کونسے پرائیسنگ ماڈلز پر عمل کیا جائیگا؟ اگر ایک طالبعلم کے سامنے یہ دوآپشن رکھے جائیں کہ آیا وہ ایک اعلیٰ درجے کی یونیورسٹی سے آن لائن تعلیم حاصل کرنا چاہے گا یا پھر ایک کم درجے کی مقامی یونیورسٹی سے کمرہ جماعت کے روایتی طریقے سے تعلیم حاصل کرنا پسند کریگا، تو وہ ان دونوں میں سے کس کا انتخاب کریگا؟ اس انتخاب میں فیس کے فرق کا کس قدر عمل دخل ہوگا؟ فرض کیجئے کہ اگر پاکستان میں انجینئرنگ کا سب سے بہترین تعلیمی ادارہ اس وقت ٹیوشن فیس کی مد میں دس لاکھ روپے وصول کر رہا ہے اور ایک مقامی یونیورسٹی تین لاکھ روپے لے رہی ہے۔ ایسی صورت میں اگر ایک بہترین تعلیمی ادارہ آن لائن ڈگری کا سلسلہ شروع کرتا ہے تو وہ مقامی یونیورسٹی کا انتخاب کرنیوالے طالب علموں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے کتنی فیس کم کریگا؟ اگر بہترین تعلیمی ادارہ مقامی یونیورسٹی جتنی فیس وصول کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو پھر کیا مقامی یونیورسٹی فیسوں میں کٹوتی اور معیار میں بہتری لاکر اپنا وجود باقی رکھ سکتی ہے یا پھر اسے اپنے دروازوں پر تالا لگانا پڑجائیگا؟ بہت سی یونیورسٹیوں میں پہلے ہی یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ آئندہ کچھ عرصے میں کس طرح ان کے روایتی یا آن لائن تدریسی عمل میں ایک مخصوص معیار کا مواد پڑھانے کے بجائے ایک دوسرے سے مختلف مواد پڑھانے کا رجحان پیدا ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی مضامین اور ذیلی مضامین میں مقامی مواد پر پہلے ہی مباحثہ جاری ہے۔ نیا توازن جو بھی ہو لیکن یہ تو طے ہے کہ آئندہ چند برس پوری دنیا کی یونیورسٹیوں کیلئے ہنگامہ خیز رہیں گے۔

مزید پڑھیں:  آئینی تقاضا