عراق میں جب بادشاہت قائم تھی ۔ حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت عبداللہ بن جابر کی قبریں اس وقت یہاں (جامع مسجد سلیمان کے احاطے میں ) نہیں تھیں ، بلکہ یہاں سے کافی فاصلے پر دریائے دجلہ اور مسجد سلمان کے درمیان کسی جگہ واقع تھیں ۔ 1929ء میں بادشاہ وقت نے خواب میں دیکھا کہ حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت عبداللہ بن جابر اس سے فرمارہے ہیں کہ ہماری قبروں میں پانی آرہا ہے ۔ اس کا مناسب انتظام کرو ۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ دریائے دجلہ اور قبروں کے درمیان کسی جگہ گہری کھدائی کر کے دیکھا جائے کہ دجلہ کا پانی اندرونی طور پر قبروں کی طرف رس رہا ہے یا نہیں ، کھدائی کی گئی ، لیکن پانی رسنے کے کوئی آثار نظر نہیں آئے، چنانچہ بادشاہ نے اس بات کو خواب سمجھ کر نظر انداز کر دیا ۔ لیکن اس کے بعد پھر غالباً ایک سے زیادہ مرتبہ وہی خواب دکھائی دیا ، جس سے بادشاہ کو بڑی تشویش ہوئی اور اس نے علماء کوجمع کر کے ان کے سامنے یہ واقعہ بیان کیا ۔ اس وقت عراق کے کسی عالم نے بھی بیان کیا کہ انہوں نے بھی بعینہ یہی خواب دیکھا ہے ۔ اس وقت مشورے اور بحث و تمحیص کے بعد رائے یہ قرار پائی کہ دونوں صحابہ کرام کی قبر کھود کر دیکھا جائے اور اگر پانی وغیرہ آرہا ہو تو ان کے جسموں کو منتقل کیا جائے ، اس وقت کے علماء نے بھی اس رائے سے اتفاق کر لیا۔قبروں کو کھو دنے کیلئے حکومت عراق نے زبردست اہتمام کیا، اس کیلئے ایک تاریخ مقرر کی تاکہ لوگ اس عمل میں شریک ہو سکیں ۔ حکومت عراق نے حج کے بعد کی ایک تاریخ مقرر کر دی ۔ کہاجاتا ہے کہ مقررہ تاریخ پر نہ صرف اندرون عراق بلکہ دوسرے ملکوں سے بھی خلقت کا اژدحام ہوا۔ اس طرح یہ مبارک قبریں کھولی گئیں اور ہزارہا افراد کے سمندر نے یہ حیرت انگیز منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ تقریباً 13صدیاں گزرنے کے باوجود دونوں صحابہ کرام کا مبارک جسد صحیح، سالم اور ترو تازہ تھیں۔ ایک غیر مسلم ماہر امراض چشم وہاں موجود تھا، اس نے ایک جسد مبارک کو دیکھ کر بتایا کہ ان کی آنکھوں میں ابھی تک وہ چمک موجود ہے جو کسی مردے کی آنکھوں میں انتقال کے کچھ دیر بعد بھی موجود نہیں رہ سکتی چنانچہ وہ شخص یہ منظر دیکھ کر مسلمان ہوگیا۔ جسد مبارک کو منتقل کرنے کیلئے پہلے سے حضرت سلمان فارسی کی قبر کے قریب جگہ تیا ر کر لی گئی تھی ، وہاں تک لے جانے کیلئے مبارک جسد کو جنازے پر رکھا گیا۔ اس میں لمبے لمبے بانس باندھے گئے اور ہزارہا افراد کو کندھا دینے کی سعادت نصیب ہوئی اور اس طرح اب ان دونوں صحابہ کرام کی قبریں موجودہ جگہ پر بنی ہوئی ہیں۔