این ایف سی اور18 ویں ترمیم کے معاملہ پر گزشتہ روز سینٹ میں ہوا ملا کھڑا اپوزیشن نے جیت لیا۔حزب اختلاف نے ووٹوں کی کثرت سے این ایف سی پر حکومتی بل مسترد کروا دیا۔ بل پر بحث کے دوران جنرل مشرف کے ایک سابق دست راست اور ایم کیو ایم کے سینئر بیرسٹر محمد علی سیف نے18 ویں ترمیم کے حوالے سے اپنے”ارشادات عالیہ” پیش کئے۔سیف ایم کیو ایم بہادر آباد گروپ کا حصہ ہے اور بہادر آباد گروپ وفاق میں تحریک انصاف کے اتحاد میں شامل ہے اپنے پیارے بھائی الطاف حسین اس گروپ کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں اُن فرمودات کو ضبط تحریر میں لانا بہت مشکل ہے۔عجیب بات ہے عاق کیا گیا بانی18 ویں ترمیم کے حق میں بیان دے رہا ہے اور پارٹی کا ایک حصہ نظر یہ ضرورت پر عمل پیرا ہے۔خیر یہ دونوں کا باہمی معاملہ ہے ہمیں کیا۔ایک بات طے ہے کہ این ایف سی ایوارڈ اور18ویں ترمیم ہر دور کے معاملے میں ”کوئی”پریشان ہے اوراس کی پریشانی دور کرنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ حکومت کے پاس پارلیمان کے دونوں ایوانوں میںچونکہ اکثریت نہیں ہے اس لئے سارا زور بیان بازی اور سوشل میڈیا پرو پیگنڈ ے پر ہے۔پچھلے دواڑھائی سالوں سے منظم انداز کے ساتھ18ویں ترمیم کے خلاف اور صدارتی نظام کے حق میں مہم چلائی جارہی ہے۔واقفان حال کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم کے ایک مشیر ڈاکٹر عطاء الرحمن صدارتی نظام کا مسودہ بھی لئے پھرتے ہیں۔آئیں ترمیم کے بغیر صدارتی نظام کا ڈول ڈالنا مشکل ہے اس لئے اسے متنازعہ بنایا جارہا ہے۔
حیرانی اس بات پر ہے کہ 2018ء تک جناب عمران خان اسی 18 ویں ترمیم کے پر جوش مبلغ تھے اور اب ان کی حکومت اور جماعت کھلی مخالفت میں پیش پیش۔کیا واقعی حکومت 18ویں ترمیم میں مضبوط وفاق کے لئے ترامیم اور صدارتی نظام کی طرف پیش رفت کی خواہش مند ہے۔یا پھر درپیش مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے آئے دن شوشے چھوڑے جاتے ہیں؟۔ جواب سمجھنے کے لئے ایک حکومتی وزیر محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا حالیہ بیان کافی ہے۔ڈاکٹر صاحبہ اس اسمبلی کی اسپیکر تھیں جس نے18 ویں ترمیم منظور کی تھی مگر اب وہ کہتی ہیں کہ”اس ترمیم کا ختم ہونا ہی بہتر ہے۔کیونکہ اس نے وفاق کے ہاتھ پائوں باندھ دیئے ہیں”۔ غور طلب امر یہ ہے کہ کیا مضبوط وفاق کی طرف واپسی کے سفر کی فیڈریشن متحمل ہو سکے گی؟۔ صوبے اپنے اختیارات اور دستیاب خود مختاری سے آسانی کے ساتھ دستبردار ہو جائیں گے۔ بظاہر یہ کام آسان نہیں ہے۔رہا صدارتی نظام جس کے فیوض وبرکات سمجھائے جارہے ہیں تویہ جناح صاحب کے تصورات اور خود 1973ء کے دستور کے یکسر منافی ہے اندریں حالات اگر کچھ طبقات یہ سوال کر رہے ہیں کہ مسائل سے دوچار حکومت اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر ا ہونے کی بجائے نان ایشوز پر سیاست کیوں کر رہی ہے توان سوالات کا جواب دینے کی ضرورت ہے ۔البتہ حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ دونوں یا تینوں کام بہت ضروری ہیں تو اس کا آسان حل یہ ہے کہ وسط مدتی انتخابات کی طرف بڑھ لیا جائے تحریک انصاف اور اس کے اتحادی اپنا مقدمہ اور ضرورتیں لے کہ عوام کے پاس جائیں یہی مناسب اور درست راستہ ہوگا۔اسٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت اب تک10ہزار ارب روپے کا قرضہ لے چکی ہے اس طور ملک مجموعی طور پر34ہزار500ارب روپے کا مقروض ہے اوسطاً یومیہ قرضہ 14.2ارب ہے۔رپورٹ کے مطابق قرضوں میں اضافہ44فیصد کی انتہائی تشویشناک شرح کے حساب سے ہے۔ کمزور معیشت مالیاتی ابتری اور کورونا سے پیدا شدہ مسائل سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وفاقی بجٹ میں حقیقت حال کو یکسر نظر انداز کیا گیا اور جن مدوں میں اخراجات کم کر کے معشیت پر بوجھ کم کیا جاسکتا تھا ان پر توجہ نہیں دی گئی۔اس صورتحال کا کلی طور پر ذمہ دار سابقہ حکومت یاحکومتوں کو قرار دینے کے فیشن کی تائید نہیں کی جاسکتی۔نون لیگ کی حکومت کے خاتمہ اور تحریک انصاف کے حکومت آنے کے درمیان قائم نگران حکومت نے اختیارات نہ رکھنے کے باوجود جو مالیاتی فیصلے کئے بد ترین مشکلات کا دروازہ ان فیصلوں نے کھولا۔بہر طور مالیاتی ابتری سے پیدا شدہ مسائل اس امر کے متقاضی ہیں کہ روایتی سیاست کی بجائے ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جن سے ساز گار ماحول بنے حکومت اور حزب اختلاف مل کر ملک کو اس مشکل مرحلے سے نکالیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ ذاتی دشمنیوں سے عبارت سیاست اور نفرت دونوں اس اتفاق رائے کے مانع ہیں۔ جمہوری نظام میں وہ چاہے موجودہ طبقاتی جمہوریت ہی کیوں نہ ہو اپوزیشن کے تعاون کے بغیر اقدامات ممکن نہیں۔وزیراعظم اور دیگر حکومتی زعما کو سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہوگا۔مکرر عرض ہے حکومت کے سامنے دوراستے ہیں اولاً حکومت اور اپوزیشن میں اعتماد سازی اور ثانیاً وسط مدتی انتخابات کی طرف جانا فیصلہ حکومت کو کرنا ہے کہ اسے کیا پسند ہے۔
Load/Hide Comments