2 233

کلبھوشن کہانی کا آخری موڑ؟

پاکستان کی قید میں بھارتی نیوی کے حاضرسروس افسرکلبھوشن یادیو بھارت کی عالمی رسوائیوں کا سامان اور اشتہار بن کر رہ گئے ہیں۔ بھارت نے گزشتہ دہائیوں میں مغرب میں پاکستان مخالفت کی ساری لہر اس بیانئے کیساتھ اُٹھائی تھی کہ امریکہ اور اسرائیل کی طرح بھارت بھی اسلامی دہشتگردی کا شکار ہے۔ بھارت نے دنیا کے انوکھے ”مظلومین” کی ایک خودساختہ مثلث بنا کر پاکستان کو دنیا میں یکا وتنہا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ کلبھوشن کی صورت میں پاکستان کو آخرکار وہ دلیل اور ثبوت ملا کہ جس سے وہ دنیا کو یہ باور کرانے لگا کہ بھارت اپنے اوپر مظلومیت کی جو چادر تانے ہوئے ہے وہ صرف نمائشی اور مصنوعی ہے حقیقت میں بھارت ریاست کی سطح پر پاکستان میں دہشتگردی اور تخریب کاری میں مصروف ہے۔ اس ایک شخص کے ہاتھ آجانے نے بھارت کے عالمی سطح پر پھیلائے گئے مؤقف پر پانی پھیر دیا۔ دنیا کو یہ اندازہ ہوا کہ خطے میں ہونے والے واقعات میں بھارت اس قدر مظلوم اور دہشتگردی کا مارا بھی نہیں جتنا کہ وہ خود کو بتا رہا ہے۔ حقیقت میں وہ پاکستان کے اندر بھی دہشتگردی اور سبوتاژ کی کارروائیوں میں مصروف ہے اور یوں معاملہ یکطرفہ اور مسلط کردہ دہشتگردی سے زیادہ پراکسی وار اور ادلے کے بدلے کا ہے۔ کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد عالمی سطح پر پاکستان مخالف ماحول اور منظر بدلنے لگا تھا اور پاکستان کو دنیا کی ہر دہشتگردی کیساتھ بریکٹ کرنے کی مہم میں مرحلہ وار کمی آنے لگی تھی۔ کلبھوشن کی گرفتاری ایک فرد کی گرفتاری نہیں تھی بلکہ بھارت کے یکطرف مظلومیت کے بیانئے کی دیوہیکل عمارت کے زمین بوس ہونے کا آغاز بھی تھا۔ اس بیانئے کو گھڑنے اور اسے دنیا کے سامنے سچ بنانے کیلئے بھارت نے عالمی سطح پر برسوں بھاری سرمایہ کاری کی تھی۔شاید یہی وجہ ہے کہ کلبھوشن کی گرفتاری کے وقت بھارت نے بہت زوردار سفارتکاری کے ذریعے اسے بازیاب کرانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال نے جن کی براہ راست نگرانی میں کلبھوشن یادیو پاکستان میں آپریشن کرتا رہا ہے پاکستان کی منت ترلے سے دھمکی تک ہر حربہ استعمال کیا کہ کلبھوشن کو رازداری سے واپس لے جایا جائے۔ یہ پاکستان کا وہ جوابی داؤ تھا جس کے انتظار میں اس نے بہت وقت بھی کاٹا اور بہت سرمایہ کاری اور منصوبہ بندی بھی کی تھی۔ پاکستان میں دہشتگردی کے نام پر بھارت ہر بار پتلی گلی سے نکل جاتا تھا کیونکہ پاکستان میں ایسی کارروائیوں میں کوئی بھارتی شہری براہ راست ملوث نہیں ہوتا تھا۔ اس طرح کی اکثر کارروائیاں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے وغیرہ کرتے تھے جو پاکستانی شہری ہوتے تھے اور بھارت کے اس مؤقف میں وزن ہوتا تھا کہ ہم کیا کرتے ہیں لڑنے والے اور حملے کرنے والے تو پاکستانی شہری ہیں۔ کلبھوشن کے ہاتھ آنے سے چہرے کے نقاب اور ہاتھوں کے دستانے سب اُتر گئے۔ کلبھوشن کو چھڑانے کے اجیت دووال کی منت سماجت اور دھمکی کام نہ آئی تو بھارت نے سودے بازی کی پوزیشن بہتر بنانے کیلئے پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ کرنل حبیب کو جھانسہ دیکر نیپال بلا کر اغوا کر لیا۔ کرنل حبیب کو نیپال سے بھارت منتقل کیا گیا مگر آگے کیا ہوا؟ کسی کو معلوم نہیں مگر کلبھوشن کو رہائی نہ مل سکی اور کرنل حبیب بھی واپس نہ لوٹ سکے۔ آخری چارہ کار کے طور پر بھارت نے عدالتی آپریشن کے ذریعے کلبھوشن کو چھڑانے کی کوشش کی۔ یہ آپریشن عالمی عدالت انصاف کے ذریعے کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ بھارت کو یقین تھا کہ عالمی عدالت انصاف پاکستان کے مؤقف کو مسترد کرکے کلبھوشن کو رہائی دے گی یا پھر انہیں اس بات کا اعتماد تھا کہ پاکستان کو اس کیس میں ہاتھ ہلکا رکھنے پر آمادہ کر لیا جائے اور پاکستانی وکیل جب کیس کمزور کریں گے تو عدالت کے پاس کلبھوشن کی رہائی کا فیصلہ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ پاکستان نے کچھ کمزوریاں دکھانے کے بعد کلبھوشن کا کیس ایک بہترین وکیل کے ذریعے لڑا اور ثبوت بھی اس قدر مضبوط اور ناقابل تردید تھے کہ عالمی عدالت انصاف کلبھوشن کیلئے کچھ جزوی رعایتوں کا فیصلہ تو دے سکی مگر اس کی رہائی اور بے گناہی کا فیصلہ نہ دینے پر قادر نہ رہی، گویا کہ کلبھوشن کو اپنی بے گناہی کا مقدمہ نئے سرے میں پاکستانی عدالتوں اور عدالتی نظام کے ذریعے لڑ کر اپنا مؤقف ثابت کرنا تھا۔ عالمی عدالت انصاف نے پاکستان کے عدالتی نظام کو بہتر کرتے ہوئے کلبھوشن کو شفاف ٹرائل اور اپیل کے حق میں بہتری کا مشورہ دیا اور آج پاکستان عالمی عدالت انصاف کے اسی فیصلے کے تحت کلبھوشن کو پاکستانی عدالتوں میں مقدمہ لڑنے اور بے گناہی ثابت کرنے کے آخری آخری مواقع دے رہا ہے۔ صدر مملکت عارف علوی کا آرڈیننس اور قونصلر رسائی کا حق عالمی عدالت انصاف کے اسی فیصلے پر عمل ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت نے کلبھوشن کو پھانسی گھاٹ کی طرف دھکیل دیا تاکہ بدنامی کا یہ باب بند ہو مگر پاکستان کو کلبھوشن کہانی کو بھارتی خواہشات پر ختم کرنے کی بجائے ابھی اسے اچھے اچھے موڑ دیکر اور زندہ رکھنا چاہئے کہ کلبھوشن کی موت سے زیادہ اس کی زندگی سے بھارت کو اب تکلیف محسوس ہونے لگی ہے۔

مزید پڑھیں:  کیا بابے تعینات کرنے سے مسائل حل ہوجائیں گے