p613 66

سرکاری ریٹ پر آٹا ملے گا کہاںسے ؟

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کا گندم کی خریداری کا مقررہ ہدف حاصل نہ کرنے پر محکمہ خوراک کو اس کی وجوہات کے بارے میں تفصیلی رپورٹ کی ہدایت احسن اقدام ضرور ہے، صوبے میں آٹے کی قیمتوں میں کمی لانے پر فوری توجہ کی بھی ضرورت ہے تاکہ یہ معاملہ سنگین نہ ہو جائے۔ وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی کامران بنگش کے مطابق کابینہ نے صوبے کے فلور ملوں کو رعایتی نرخوں پر گندم کی فراہمی کی منظوری دیدی ہے، جس کے نتیجے میں آٹے کے 20کلو تھیلے کی قیمت 860روپے مقرر ہوگی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ محض سرکاری ریٹ مقرر کرنا کافی نہ ہوگا بلکہ اس قیمت پر عوام کو آٹے کی فراہمی یقینی بنا کر ہی حکومت کی ذمہ داری پوری ہوسکے گی۔ امر واقع یہ ہے کہ صوبے کے فلورملوں کو پسائی کیلئے مطلوبہ مقدار میں گندم کی فراہمی نہ ہونے کے سبب اور فلور ملوں کو کھلی منڈی سے براہ راست گندم کی خریداری کی ممانعت ومشکلات کے بناء طلب ورسد کا توازن متاثر ہوا جس کا فائدہ آٹا کی کھلی منڈی کے مواقع پرست تاجروں نے اُٹھا یا۔ حکومتی اعلان کے باوجود یہ امر ممکن نظر نہیں آتا کہ حکومت مقررہ ریٹ پر عوام کو آٹا فراہمی کا وعدہ پورا کر سکے۔ آٹا قیمتوں کو اعتدال میں صرف انتظامی فیصلوں کے باعث لانا ممکن نہ ہوگا اس کیلئے مارکیٹ کی قوتوں کا مقابلہ اور رسد کی بھرپور فراہمی کے ذریعے طلب سے کہیں زائد آٹا وافر مقدار میں مارکیٹ میں یقینی بنانے کی ضرورت ہوگی جس کے بعد ہی حکومت اس قابل ہوگی کہ آٹا کی قیمتوں کو سرکاری نرخنامہ کے مطابق لا سکے۔ حکومت کو یوٹیلیٹی سٹورزمیں آٹا کی وافر فراہمی اور ملوں سے براہ راست خریداری کا مجرب طریقہ کار اپنانا ہوگا۔ قبل ازیںانتظامیہ نے مختلف مقامات پر سرکاری ریٹ پر عوام کو آٹا فراہم کرنے کے جو احسن اقدامات کئے تھے اس سلسلے کو دوبارہ شروع کیا جانا چاہئے۔مشکل امر یہی سامنے آتا ہے کہ حکومت جب بھی کسی چیز کی قیمت مقرر کردیتی ہے منظم مافیا اسے غائب کردیتا ہے۔ سرکاری ریٹ مقرر ہوتے ہی مارکیٹ سے چینی اور آٹا غائب ہوگیا ہے۔یوٹیلیٹی سٹورزپر بھی چینی اور آٹا دستیاب نہیں، چینی کا سرکاری ریٹ ستر روپے مقرر کیا گیا ہے لیکن مارکیٹ میں کہیں بھی دستیاب نہیں۔ صوبائی دارالحکومت میں چینی نوے روپے کلو فروخت ہورہی ہے، تاجروں کے اس موقف میں بھی وزن ہے کہ جب چینی کھلی مارکیٹ میں بیاسی روپے مل رہی ہو تو ستر روپے میں فروخت کیسے کریں۔ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن نے بھی حکومتی اعلان کے باوجود مہنگی چینی خریدی تھی تو سستی اور مقررہ قیمت پر وہاں بھی فروخت ممکن نہیں، آٹا کی قیمتوں کے حوالے سے بھی یہی صورتحال ہے۔ آٹا سرکاری ریٹ پر دستیاب ہی نہیں اور سپلائی بھی متاثر ہے، آٹے کی فی بوری کی قیمت میں پانچ سو روپے تک کا اضافہ ہوگیا ہے، شہر میں بیس کلو آٹا کم وبیش ساڑھے بارہ سو روپے میں فروخت ہونے لگا ہے۔ نانبائیوں نے روٹی کا وزن مزید گھٹا دیا ہے۔ان حالات سے نمٹنے کیلئے محکمہ خوراک کی کوئی تیاری نظر نہیں آئی بلکہ ملکی سطح پر ایک منظم منصوبے کے تحت گندم منڈی سے اُٹھا کر بحرانی کیفیت پیدا کی گئی جس کا غذائی تحفظ کے وفاقی وزیر نے قومی اسمبلی میں بیان دیکر اعتراف اورخود نشاندہی کی ہے۔ جو گندم مارکیٹ میں آکر مہنگے داموں فروخت ہوگی اس حوالے سے حکومت کی کیا تیاریاں ہیں، آڑھتیوں کے گوداموں میں ذخیرہ گندم پر چھاپے کیوں نہیں پڑ رہے ہیں۔ حکومت ذخیرہ شدہ گندم مارکیٹ میں لانے کیلئے سنجیدہ کیوں نہیں، ان کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی، گندم کو مارکیٹ سے غائب ہونے یا کئے جانے کی صورتحال پر بروقت اقدامات کیوں نہیں کئے گئے۔اور اب جو لوگ گندم کی قلت کا فائدہ اُٹھا کر گندم در آمد کر کے کروڑوں کمائیں گے اور آڑھتیوں کے گوداموں سے اچانک مہنگے داموں گندم مارکیٹ میں آئے گی اس کا کیا بنے گا، نیز اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ فلورملز مالکان کوکٹائی کے موقع پر گندم کی خریداری سے ایک حکم کے ذریعے کیوں روکا گیا اور انہوں نے جو گندم خریدرکھی تھی ان کو زبردستی سرکاری تحویل میں کیوں لیا گیا جبکہ دوسری جانب آڑ ھتیوں کے گوداموں میں گندم کے بڑے بڑے ذخیرے ہونے سے صرف نظر کیوں کیا جاتا رہا۔ ہمارے تئیں اس تمام کوتاہی کی ذمہ داری محکمہ خوراک اور بلا سوچے سمجھے فیصلے کرنے والوں پر عائد ہوتی ہے۔ گندم وآٹا کی قلت کے حوالے سے غور کرتے ہوئے شوگر مافیا کیخلاف تحقیقات کے دوران آنے والے عوامل حکومتی فیصلوں اور ملی بھگت جیسے امور کو پوری طرح نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ گندم وآٹا بحران کا فوری خاتمہ اور سرکاری نرخوں پر آٹا کی فراہمی کا وعدہ پورا کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری بھی ہے اور امتحان بھی، ساتھ ساتھ اس کی وجوہات کا تعین اور متعلقہ محکموں اور ذمہ دارعناصر کا تعین بھی ضروری ہے تاکہ آئندہ اس طرح کی صورتحال کاسامنا نہ ہو۔صوبائی حکومت کو اپنے اعلان کے مطابق سرکاری ریٹ پر آٹا کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے جلد سے جلد عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس اعلان پر عملدرآمد ہو تا نظر آئے۔

مزید پڑھیں:  تنگ آمد بجنگ آمد