5 139

آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے

سپریم کورٹ کے دورکنی بنچ نے سعد رفیق اور سلمان رفیق ضمانت کیس پر اپنا تفصلی فیصلہ سنایا ہے۔ یہ فیصلہ چونکہ اب پبلک ہو چکا ہے اس لئے اس پر مختلف طبقات اپنی آراء ظاہر کرنے میں آزاد ہیں اور ایسا ہو بھی ہورہا ہے۔ پیراگون ہاؤسنگ سکیم کے مقدمہ میں خواجہ برادران نیب کی حراست میں تھے اور انہوں نے اپنی ضمانت کیلئے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جسے عدالت نے مسترد کیا تھا اور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کیخلاف دونوں بھائیوں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ جسٹس مقبول باقر اور جسٹس مظہر عالم پر مشتمل سپریم کورٹ کے بنچ نے اس کیس کی سماعت کرکے اپنا فیصلہ سنایا ہے۔ فیصلہ حقیقت میں نیب کیخلاف ایک طویل چارج شیٹ ہے جس میں سارا زور نیب کی خرابیوں کی تلاش اور دریافت میں صرف کیا گیا جبکہ معاشرے کے اصل ناسور کرپشن اور قانونی نظام کی خرابیوں پر سرسری انداز میں بات کی گئی ہے۔ عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب ایک متنازعہ ادارہ اور احتساب یک طرفہ ہے، جس کا مقصد وفاداریاں تبدیل کرانا، سیاسی جماعتیں توڑنا، مخالفین کا بازو مروڑنا اور انہیں سبق سکھانا ہے جس سے اس کی ساکھ اور غیرجانبداری مجروح ہو چکی ہے۔ مہذب معاشروں میں مجرم قرار دینے کے بعد سزا شروع ہوتی ہے۔ ٹرائل سے پہلے یا ٹرائل کے دوران سزا اذیت کا باعث ہوتی ہے۔ گرفتاری کا اختیار ظلم وہراسانی کیلئے استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ آئین میں انسانی حقوق کے احترام کا حق غیرمشروط کسی بھی حالت میں ختم یا کم نہیں ہو سکتا۔ سزا کے بغیر گرفتاری شخصی توہین فرد اور خاندان کی اذیت اور بدنامی کا باعث بنتی ہے۔ عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا کہ کرپشن معاشرے میں رچ بس گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے نیب قانون میں خرابیوں کی بجاطور پر نشاندہی کی ہے، حکومت کو ان نکات کو سامنے رکھ کر نیب قانون کو مزید بہتر بنانا چاہئے۔ آئین میں درج انسانوں کے شخصی حق اور احترام کو قدم قدم پر یقینی بنانا چاہئے۔انسانوں کے حقوق کیساتھ ساتھ اس ملک کا بھی اپنے باسیوں اور باشندوں پر کوئی حق ہے۔ ملک اپنے باسیوں سے یہ تقاضا کرتا ہے وہ ایسا راستہ اپنائیں جس میں قانون کی حاکمیت ہو اور ہر شخص کی آزادی کی حد دوسرے کی ناک کے پاس جا کر ختم ہو جائے۔ جب بات مقتدر اور بااثر طبقات اور رول ماڈل سمجھے جانے والے کرداروں کی ہو تو ملک ومعاشرہ ان سے ایسے اقدامات کی توقع رکھتا ہے کہ ان کے ہر قدم سے ملک مضبوط اور اس کی معیشت ترقی کرے۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی کا کوئی تصور ہی باقی نہیں رہا۔ ہر شخص اور ادارہ اپنی ذات میں قانون ہے۔ اس انارکی کا مطلب لاقانونیت کا راج اور دور دورہ ہے۔ بہت سے معاشرے اسی روئیے کی عادت اور رسم ورواج بن جانے کی وجہ سے زوال کا شکار ہوئے۔ ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں وہاں سیاست اور جرم باہم گڈمڈ ہو گئے ہیں۔ جرم صرف تشدد اور اسلحہ کا نام نہیں بلکہ کرپشن اور کمیشن بھی بدترین جرائم ہیں۔ تشدد سے ایک فرد یا چند افراد تباہ ہوتے ہیں جبکہ کرپشن اور لاقانونیت پورے سماج کو اور اس کی اقدار کو برباد کرکے رکھ دیتے ہیں۔ معاشرے قانون کے خوف سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ کردار سے عاری نسلیں تیار ہوتی ہیں، جن کیلئے حرام اور حلال، غلط اور صحیح کی اہمیت نہیں رہتی۔ نیب کے قانون سے پہلے اس ملک میں احتساب ایکٹ رائج تھا مگر اس سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکا۔ مسلم لیگ ن اپنے دور میں پیپلزپارٹی والوں کو اور پیپلزپارٹی کی حکومتیں ن لیگ کو عدالتوں کے چکر لگواتی رہیں مگر قانون کی کمزوری اور الزام کی زد میں آنے والوں کی طاقت کا خوف کسی بھی کیس کو منطقی انجام تک پہنچنے ہی نہیں دے رہا تھا۔ عدالتی چکروں کو فوٹوسیشن، مظلومیت کارڈ اور وقت گزاری کیلئے استعمال کیا جاتا تھا ان چکروں میں ہی باری بدلنے کا وقت آجاتا تھا اور پھر پرانے کیس داخل دفتر ہوجاتے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس احتساب ایکٹ کی جگہ نیب کا قانون متعارف کرایا گیا جس میں پلی بارگین کو اہمیت دی گئی تاکہ قوم اور ملک کا وقت اور وسائل بے مقصد عدالتی چکروں میں ضائع نہ ہو اور اگر ملزم لوٹی ہوئی رقم سے کچھ دے دلا کر خلاصی پانا چاہے تو اس کی گنجائش باقی رہے۔ کرپشن ایک سائنس کی شکل اختیار کر چکی ہے اور کرپشن کرنے والے جدید ذرائع استعمال کرکے اسے چھپانے کے فن سے آشنا ہوتے ہیں۔ پاکستان میں روایتی طریقہ کار کے تحت سو سال تک بھی کسی سے کرپشن کی رقم اگلوائی نہیں جا سکتی۔ احترام آدمیت اور شخصی حق کی بات اپنی جگہ مگر ملک کے حق کی بات کون کرے گا؟ جب کوئی شخص کرپشن کر رہا ہو تو اہل خانہ ”ہٰذا من فضل ربی” سمجھ کر اپنے کماؤ پوتوں کی سرگرمیوں پر پھولے نہیں سماتے۔ کبھی کوئی ماں بیوی بہن بیٹا بھائی کرپشن کرنے والے کو اس کام سے منع نہیں کرتا۔ حلال کے فوائد نہیں بتاتا تو پھر جب اس پر زد پڑے تو وہی اہل خانہ ذہنی اذیت کی دہائی دینے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ نیب میں سو خامیاں ہوں گی اور ہیں مگر کرپشن کا جو معیار یہاں رائج ہے اس میں مزید سخت قوانین کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  پشاور کا بے ہنگم ٹریفک