p613 67

کلبھوشن کا معاملہ

بھارت کی جانب سے اپنے سزایافتہ جاسوس کلبھوشن یادیوکے حوالے سے پاکستان کے اتمام حجت کے اقدامات میں عدم تعاون یہاں تک کہ بھارتی سفارتکاروں کا اپنے مقید جاسوس شہری سے رسائی دینے کے باوجود ملاقات سے ہی گریز سے بخوبی ظاہر ہے کہ بھارت کی سوائے پاکستان کو مطعون کرنے کی کوشش کے اس مقدمے سے کوئی دلچسپی نہیں، اس کے باوجود کہ اپیل کے حق کا ملزم اور اس کے ملک دونوں نے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا ۔ واضح رہے کہ فوجی عدالت نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو جاسوسی کے الزام میں سزائے موت سنائی ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ سزائے موت پر نظرثانی کرے اور اسے قونصلر رسائی دے۔ اس حوالے سے پاکستان کلبھوشن کو نہ صرف متعدد بار قونصلر رسائی دے چکا ہے بلکہ اس سے اہل خانہ کی ملاقات بھی کروائی گئی ہے۔ کلبھوشن کو سزائے موت کیخلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کا بھی موقع دیا گیا تاہم اس نے انکار کردیا۔ حکومت کو اس آرڈیننس کے اجراء پر سیاسی طور پر سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا، ہم سمجھتے ہیں کہ اولاًبھارت یا پھر اس کے جاسوس کو اپیل کا حق مقررہ مدت کے اندر استعمال کرنا چاہئے تھا جس سے عدم دلچسپی سے اس امرکا اظہار ہوتا ہے کہ شاید ان کے پاس اپنی دفاع میں پیش کرنے کیلئے کچھ نہ ہو اور فوجی عدالت نے جن بنیادوں پر کلبھوشن کو سزا سنائی ہے وہ ٹھوس شواہد کی بناء پر ہوں۔ بھارت کا عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کا مقصد سوائے اس کے کچھ اور نہ تھا کہ معاملے کو طول دیا جائے، اب بھی ان کے عدم اعتماد کا مقصد معاملے کو طول دینا اور پاکستان پر دبائو ڈالنا تھا۔ اتمام حجت در اتمام حجت کے جو حتمی مرحلے پر بھی حکومت کا اقدام مفاہمانہ اور انصاف کے تقاضوں کو بار بار پورے کرنے کا ہے یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ پاکستان میں بھارتی جاسوسوں کو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہو اور ان کو سزا سنائی گئی ہو، پاکستان نے اس کے باوجود بھارتی جاسوسوں کو خیرسگالی کے تحت بھارت کے حوالے کرنے کے اقدامات بھی کئے جس کا جواب بھارت نے مزید تخریبی سرگرمیوں کی صورت میں دیا۔ اس وقت بھی بھارت لائن آف کنٹرول پر بلاوجہ کی اشتعال انگیزی میں مصروف ہے اس کے باوجود پاکستان کا رویہ مفاہمانہ ہے جس کا بھارت کو احساس ہونا چاہئے اور پاکستان کیساتھ اپنے روئیے پر نظرثانی کرنی چاہئے۔
بجلی کی لٹکتی تاریں’شہر بھر کا مسئلہ
پیسکو دائود زئی سب ڈویژن کے علاقے عیسیٰ خیل تو پچیان نزد لڑمہ میں واقع گھر کے اوپر سے گزرنے والی بجلی کے تاروں کا جو عکس دیکھنے کے بعد اس حوالے سے کسی مزید توضیح وتشریح اور تبصرے کی گنجائش نہیں۔ ہمارے نمائندے کے مطابق قاری سید رسول مدرسہ کے قریب واقع گھر کے اوپر سے گزرنے والے بجلی تاروں نے عوام کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ 24 جون 2020ء کو ہونے والی پیسکو کی کھلی کچہری میں پیسکو چیف نے متعلقہ حکام کو احکامات جاری کئے تھے اس مسئلے کو جلد ازجلد حل کیا جائے مگر تاحال اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا،یہ صرف لڑمہ ہی میں نہیں کم وپیش پورے شہر میں بجلی کے میٹر کھمبوں پر اس بے ترتیبی سے لگائے گئے ہیں کہ لٹکتی تاریں زمین کو چھونے لگتی ہیں لیکن پیسکو حکام کو کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ ایک ایک دو دو کر کے ہی بجلی کے کھمبوں میں لگے بے ترتیب میٹرز سلیقے کیساتھ نصب کریں اور لٹکی تاروں کے خطرے سے لوگوں کو بچایا جائے۔ برسات کے موسم میں پیسکو والے شہریوں کو تنبیہ کرنے کی ذمہ داری کو کافی سمجھتے ہیں، لڑمہ میں اس مسئلے کا حل اگر پیسکوچیف کی ہدایات کے باوجود بھی نہ نکلا تو مکینوں کے پاس چیئرمین واپڈا سے رجوع کرنے کا ہی موقع آخری بچتا ہے۔ لٹکتی تاروں کو کھینچ کر مناسب اونچائی پر کرنا اتنا گمبھیر مسئلہ نہیں یہ معاملہ لائن مین اور سپرنٹنڈنٹ کی سطح پر حل ہوسکتا ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ مکینوں کی تصویر اور اپیل پر پیسکو چیف اپنے حکم کی دھجیاں اُڑانے والوں سے جواب طلبی ضرور کریں گے اور مسئلہ جلد حل کیا جائے گا۔
دوہرامعیار کیوں؟
افغانستان سے طورخم کے راستے قربانی کیلئے دنبوں ودیگر جانوروں کی درآمد کیلئے تاحال اجازت نہ دینا اور بلوچستان کوئٹہ کے راستے عیدالاضحیٰ کے موقع پر قربانی کیلئے دنبے ضلع خیبر کی تحصیل لنڈیکوتل مویشی منڈی لانا دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں اضافہ کے حکومتی دعوئوں کی نفی ہی نہیں عوام کو بھی چار پانچ ہزار روپے کا بلاوجہ نقصان دینے کے مترادف ہے۔ ایک ہی ملک میں دو صوبوں میں الگ الگ فیصلے کا کوئی جواز نہیں اگر کوئی مصلحت حائل نہ ہو تو افغانستان سے مویشی لانے کی اجازت پر غور کرنا چاہئے جبکہ پاکستان سے افغانستان مویشیوں کی سمگلنگ کی اطلاعات کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ حکومت مویشیوں کی درآمد وبرآمد کی باضابطہ اجازت دے تو سمگلنگ کا خاتمہ ممکن ہوگا اور سرکاری خزانے کو فائدہ ہوگا۔
نوتھیہ کا اُجڑا پارک
نوتھیہ قدیم وارڈ31 میں واقع شہید آصف خان باغی پارک کی حالت زار متعلقہ حکام کیلئے فوری توجہ کا حامل مسئلہ ہے۔پارک کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ ٹیوب لائٹس،جھولے اور چارحفاظتی جنگلے اُکھاڑنے اور پارک کے ویران ہونے کے بعد اب یہ نشئی افراد کا مسکن بن گیا ہے۔سرکاری وسائل سے پارک بنانے، بچوں کیلئے جھولے لگانے اور علاقے کے لوگوں کی تفریح کا مناسب بندوبست کرنے کے بعد عدم توجہی کا شکار بنا کر ساری محنت اور سرکاری وسائل کا ضیاع ناقابل برداشت امر ہے جس کا نوٹس لیا جانا چاہئے اور پارک کی بحالی اور مستقل آباد کاری کو یقینی بنانے کی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  ایک نیا مشرق وسطی؟