بھارت ان دنوں پسپائی کی زد میں ہے، وہی مودی جس کو عظیم لیڈر قرار دینے کی کوشش کی جارہی تھی، پے درپے شکست کھا رہا ہے۔ پاکستان، چین اور نیپال کے ہاتھوں پٹنے کے بعد اب اسے ایران میں سبکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایران اور بھارت کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا کہ بھارت ایران کی خلیج اومان میں ایک چھوٹی سی بندرگاہ چاہ بہار کو تعمیر کرنے اور اسے وسعت دینے کیلئے ایران کی مدد کرے گا، چاہ بہار بحرہند سے نزدیک ترین بندرگاہ ہے۔ اس کے اس منصوبے میں ایرانی بلوچستان کے دارالحکومت زاہدان تک ریلوے لائن بچھانے کا کام بھی شامل تھا۔ بھارت نے اس منصوبے پر 500ملین ڈالر لگانے کا وعدہ کیا تھا۔ دراصل یہ منصوبہ پاکستان کی بندرگاہ گوادر کو ناکام بنانے کیلئے ایک سازش کے تحت بنایا گیا جو چاہ بہار سے صرف 170کلومیڑ کے فاصلے پر مشرق کی طرف واقع ہے۔ ایران چاہ بہار کو پہلے ہی فری ٹریڈ زون قرار دے چکا ہے اور ایران اس بندرگاہ کو بحرہند سے قریب ترین ہونے کی وجہ سے تو اہمیت دے ہی رہا تھا لیکن جب پاکستانی بندرگاہ گوادر پر کام شروع ہوا تو اُس نے چاہ بہار کو مزید وسعت اور اہمیت دینے کا منصوبہ بنایا تاکہ اُس کی پہنچ وسط اور جنوبی ایشیا تک ہو سکے اور اسی سلسلے کی ایک کڑی 900کلومیٹر ریلوے لائن بھی تھی جسے پہلے 628کلومیٹر کے فاصلے پر زاہدان اور پھر افغانستان کے صوبے یامیان تک پہنچانا تھا جہاں ایک بھارتی کمپنی جسے سٹیل اتھارٹی آف انڈیا چلا رہا ہے، کوئلے کی کانوں پر کام کر رہی ہے اور یہاں لوہے کے وسیع ذخائر کا بھی پتہ چلا ہے، جن کا اندازہ 18بلین ٹن تک لگایا گیا ہے اور لوہے کے ذرات کی زیادہ مقدار ہونے کی وجہ سے اس کی قیمت کا تخمینہ تین ٹریلین ڈالر تک لگایا گیا ہے۔ یوں بھارت افغانستان کی دولت براستہ ایران اپنے ملک میں منتقل کرنے کا خواب دیکھ کر چاہ بہار کی ترقی کا حصہ دار بننے کی کوشش کر رہا تھا یعنی ایک تیر سے دو شکار کہ ایک طرف سستا خام لوہا خرید کر اُسے قیمیتی مصنوعات میں ڈھال کر دولت کمائے اور دوسری طرف پاکستانی بندرگاہ گوادر کے مقابلے میں ایک اور بندگاہ کھڑی کر کے اسے ناکام کرنا تھا ورنہ یہ بات طے شدہ ہے کہ اُسے ایران جو ایک مسلمان ملک ہے سے کوئی ہمدردی نہیں اگر ایسا ہوتا تو وہ اپنے ملک کے مسلمانوں کو روز روز ذلیل نہ کرتا اور نہ مظالم کا نشانہ بناتا۔
امریکی جریدے فارن پالیسی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارت ہمیشہ اندرونی مسائل اور مقبوضہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے سیزفائر لائن پر کشیدگی بڑھاتا ہے۔ مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ لداخ میں چین کے ہاتھوں شرمندگی پربھارتی حکومت کوکئی سوالوں کا سامنا ہے، بھارتی وزیراعظم مودی عوام کی دوبارہ حمایت حاصل کرنے کیلئے اپنے روایتی حریف پاکستان سے لڑائی کرسکتے ہیں۔
بہرحال اب ہوا یہ ہے کہ ایران نے بھارت کو اس منصوبے سے آؤٹ کر دیا ہے اور اس کے ٹرانسپورٹ کے وزیر محمد اسماعیل نے اس منصوبے کا افتتاح کر دیا ہے جسے مارچ 2022 تک مکمل کیا جائے گا۔ بھارتی اخبار ”دی ہندو” کے مطابق ایران اپنے قومی ترقیاتی فنڈ سے اس منصوبے پر یعنی چاہ بہار سے زاہدان تک ریلوے لائن پر 400ملین ڈالر خرچ کرے گا اور یوں بھارت ایک بڑے منصوبے سے باہر ہوگیا جس پر اُس نے خالصتاً پاکستان کیلئے بدنیتی سے کام کرنا تھا۔ اس اخراج کے چند دن بعد ہی اُس پاک ایران تیل کے پائپ لائن کے منصوبے سے بھی ایران کی طرف سے خارج کر دیا گیا یوں ایک ہی محاذ پر اُسے دو شکستوں کا سامنا کرنا پڑا، جس پر خود بھارت کے اندر بھی بڑی لے دے ہوئی۔ کانگریس نے اسے ایک بڑا نقصان قرار دیا، اس معاہدے کی منسوخی کی وجہ چین کیساتھ معاہدوں کو بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ نیوریاک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق چین اور ایران کے مابین ایک معاہدہ متوقع ہے اور اس مجوذہ معاہدے کا حجم تقریباً 400بلین ڈالر ہوگا۔ چین نہ صرف اس بندرگاہ پر خرچ کرے گا بلکہ ایران میں مختلف شعبوں میں کام کرے گا ان میں تو انائی، انفراسٹرکچرکی تعمیر، بینکنگ، ٹیلی کمیونیکیشن، بندرگاہوں، ریلوے اور ایک درجن دوسرے منصوبوں شامل ہیں۔ رپورٹس کے مطابق یہ سب کچھ آئندہ پچیس سال میں پایۂ تکمیل کو پہنچایا جائے گا۔ اس کے بدلے میں ایران چین کو بلاتعطل تیل کی فراہمی جاری رکھے گا۔ علاوہ ازیں دفاع کے شعبے میں بھی تعاون کیا جائے جس میں مشترکہ تربیت، مشقیں اور اسلحہ سازی کے علاوہ انٹیلی جنس کا تبادلہ بھی شامل ہے۔ یوں لداخ میں چین کے ہاتھوں فوجی مار کھانے کے بعد بھارت کو چین سے ایک زبردست معاشی مار بھی پڑ گئی ہے اور قوی اُمید ہے کہ اگر بھارت نے اپنا موجودہ رویہ جاری رکھا تو اُس کی اصلیت دنیا پر کھلتی جائے گی اور اُسے کئی اور محازوں پر بھی شرمندگی اور ہزیمت اُٹھانا پڑے گی۔
Load/Hide Comments