ہم اپنے اردگرد رونما ہونے والے واقعات دیکھتے ہیں تو طبیعت اداس ہو جاتی ہے بسا اوقات ایسی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ انسانیت سے اعتبار اُٹھ جاتا ہے، انسانی مزاج کی حیرت انگیز بوقلمونیاں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اور دل سے بے اختیار یہ صدا اٹھتی ہے کہ یہ سب کیا ہے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کورونا وبا سے بھی ہم نے کچھ نہیں سیکھا، ہر طرف جنگ زرگری ہے اناپرستی ہے، لالچ ہے، فریب اور بے حسی ہے! زندگی میں یقینا بڑے دھوکے ہیں آدمی کہاں تک لکھے اور کوئی کتنا پڑھے؟ زندگی کی کہانی دلچسپ بھی ہے اور عجیب بھی، زندگی کو سب اپنے اپنے نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں اپنے تجربات کی روشنی میں زندگی کی تشریحات کرتے رہتے ہیں لیکن زندگی کی سمجھ اس وقت آتی ہے جب اپنے تجربے ناکام ہوجاتے ہیں جب اپنا سیکھا ہوا اُلٹ جاتا ہے جب بساط پر اپنی مرضی سے سجائے ہوئے مہرے دھوکے پر دھوکا دیتے چلے جاتے ہیں جب انسان اپنے ارادوں کو ٹوٹتا ہوا دیکھنے لگتا ہے تو پھر زندگی کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے، زندگی کی کہانی اس لئے بھی عجیب ہے کہ اس کے معنی کبھی بھی طے نہیں کئے جا سکتے۔ اپنی منصوبہ بندیوں پر کبھی بھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ غالباً خلیل جبران نے کہا تھا کہ میں اپنے ساتھ زندگی کے تجربات لیکر پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ یہ سب کچھ میں نے زندگی کے تلخ حقائق سے سیکھا، دھوکا دینے والی طبیعتوں نے مجھے سکھایا، دلچسپ جھوٹ میرے تجربات میں اضافہ کرتے رہے، وہ وعدے مجھے سکھاتے رہے جو کبھی بھی ایفا نہیں ہوئے، وہ چہرے میرے علم میں اضافے کا باعث بنے جو دن رات اپنی ہیت تبدیل کرتے رہتے جو موسموں کی طرح تبدیل ہوتے رہتے جن پر چھایا ہوا وقار ایک خوبصورت دھوکا ہوتا، میرے تجربے میں دلکش الفاظ بھی اضافہ کرتے رہے جنہیں سن کر میں خوشی سے سرشار ہو جاتا لیکن جب ان کی اصلیت سامنے آتی تو میں حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتا، کہنے والے کا موسموں کی طرح بدل جانا مجھے انوکھے کرب میں مبتلا کر دیتا، جذباتی روئیے مجھ پر حیرتوں کے در وا کرتے رہے میں جذبات میں ڈوبے ہوئے الفاظ کی دلکشی میں ایسا ڈوبا کہ پھر میرے لئے اُبھرنا ممکن ہی نہ رہا لیکن جب حقیقت کھلی تو سچائی کے تلخ فرش پر اپنے آپ کو چاروں شانے چت پایا، پیارے جذبات مجھے طفل تسلیاں دیتے رہے میں ان جذبات کی جھوٹی کشش مجھے بہلاوے دیتی رہی، میں نے جنہیں اپنی منزل سمجھا وہ ایک سراب کے سوا کچھ بھی نہیں تھے، زندگی کے تلخ سچ میرے علم میں اضافہ کرتے رہے میں بدلتے چہروں سے دھوکا کھاتا رہا، اپنی سوچوں کے تانے بانے جھوٹی اُمیدوں کیساتھ باندھتا رہا لیکن جب ان اُمیدوں کو ٹوٹتے دیکھا تو مجھ پر انکشاف کا ایسا سورج طلوع ہوا جس نے میری آنکھوں کو چکا چوند کردیا اور میں کچھ بھی دیکھنے کے قابل نہ رہا، اپنے میٹھے پیاروں کے تلخ روئیے مجھے پل پل مارتے رہے، میری آس کی ڈور کو توڑتے رہے، میرے خلوص اور وقار کا صلہ بے وفائی اور بے مروتی کی شکل میں دیتے رہے۔ پیار کرنے والے روئیے میرے لئے خوشنما دھوکا ثابت ہوئے، چہروں پر پھیلی ہوئی مسکراہٹیں میرے تابوت کا آخری کیل ثابت ہوئیں میں نے جنہیں دوست سمجھا وہ اپنی غرض کے بندے تھے دنیا کی یہ سادہ حقیقتیں بڑی دیر بعد میری سمجھ میں آئیں، حقیقت یہ ہے کہ وہی لوگ اس دنیا میں کامیاب رہتے ہیں جو دوسروں کے خوابوں میں سر سبز وشاداب باغات کی ایسی دنیا تعمیر کر سکیں جن کی تعبیر کے انتظار میں ہی ان کی زندگی کا سورج طلوع ہوجائے۔ وہ رخصت ہوتے وقت بھی یہی سوچ رہے ہوں کہ جو بہار ہم نے نہیں دیکھی وہ ہماری آنیوالی نسلیں دیکھیں گی۔ منافقت سے بھرپور لہجے میرے علم میں اضافہ کرتے رہے، میری محفل میں بیٹھنے والے میرے مخالفین کی محفلوں میں نئے چہروں کیساتھ جا بیٹھتے۔ اس سے بڑا خسارہ کیا ہو سکتا ہے کہ انسان ساری زندگی سازشوں میں اُلجھا رہے، ان چیزوں کو پانے کی تمنا کرے جو سراسر دھوکا ہیں، سراب ہیں، جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ عام آدمی کی کیا بات کیجئے گا، ہمارے حکمران جن لوگوں کو اپنے لئے فائدہ مند سمجھتے رہے وہ ان کے گلے کا پھندا بن گئے۔ انہوں نے اپنے تجربات کی روشنی میں جو اپنے لئے سوچا تھا ویسا نہیں ہوا وہ اپنے سارے علم اور تجربے کے باوجود ناکام ہوگئے یہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا نت نئے تجربوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے، جانے کب تک جاری رہے گا کیونکہ انسانوں کی غالب اکثریت تو خسارے میں ہے۔