p613 70

عدالت عظمیٰ کے نیب کی کارکردگی پر سوالات

سپریم کورٹ نے نیب کی کارکردگی پر سوالات اُٹھاتے ہوئے چند روز قبل کہا تھا کہ جب بیس بیس سال سے مقدمات زیر التواء ہیں تو کیوں نہ نیب اور احتساب عدالتیں بند کر دیں؟ اب چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے سپریم کورٹ میں اس کا جواب جمع کراتے ہوئے کہا ہے کہ احتساب میں تاخیر کی ذمہ دار نیب نہیں بلکہ عدالتی نظام ہے کیونکہ احتساب عدالتیں کم ہیں ‘ 30روز میں کرپشن مقدمات کا فیصلہ ممکن نہیں ہے’ چیئرمین نیب نے بلا تاخیر انصاف کی فراہمی کیلئے 120نئی احتساب عدالتیں قائم کرنے کیلئے 2ارب 86کروڑ روپے کی ضرورت کا اظہار کیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جب 1999ء میں قومی احتساب بیورو (نیب) کا قیام عمل میں لایا گیا تو شفاف و غیر جانبدار احتساب اور بدعنوانی کا خاتمہ اس ادارے کے اہداف و مقاصد تھے۔ نیب قانون کے مطابق 30دن کے اندر اندر ریفرنس کا فیصلہ ہو جانا چاہیے تاہم حقیقت یہ ہے کہ چھ چھ ماہ تک ملزمان کا ٹرائل چلتا رہتا ہے، الزام عائد ہونے کے چند روز میں ہی ملزم کو گرفتار کر حراست میں لے لیا جاتا ہے اور طویل عرصہ کی گرفتاری کے بعد عقدہ کھلتا ہے کہ ملزمان کو بے جا حراست میں رکھا گیا تھا۔ پیراگون کیس میں خواجہ برادران کی نیب میں گرفتاری اور عدالت عظمیٰ سے رہائی اس کی واضح مثال ہے۔ ہر دور میں اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے نیب پر جانبداری کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ حکومت نیب کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہے’ تاہم اس بار معاملہ مختلف ہے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے نیب کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے ہیں تو اس کا واضح مطلب ہے کہ عدالت عظمیٰ نیب کی کارکردگی سمیت احتساب کے طریقہ کار سے مطمئن نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ کے نیب پر تحفظات سے معلومات ہوتا ہے کہ جن مقاصد کیلئے نیب کو بنایا گیا تھا ، نیب ان اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ان حالات کا تقاضا ہے کہ عدالت عظمیٰ کی زیرِ نگرانی قانونی ماہرین پر مشتمل اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی جائے جو نیب میں زیر التواء مقدمات کا جائزہ لے’ نیب قوانین کی جن شقات پر اپوزیشن جماعتیں تحفظات کااظہار کرتی رہی ہیں’ ان شقات کا بھی تنقیدی جائزہ لیا جائے’ یاد رہے نیشنل اکائونٹیبلٹی آرڈی نینس 1999ء کی دفعہ چھ چیئرمین نیب کی تقرری سے متعلق ہے ‘ جس کے مطابق چیئرمین نیب کی تقرری لیڈر آف ہائوس اور قومی اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن کی مشاورت سے کرتے ہیں ‘ جبکہ حکومتی ترمیمی مسودہ کے تحت حکومت کو اپوزیشن کی مشاورت کے بغیر چیئرمین نیب ‘ ڈپٹی چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع کا صوابدیدی اختیار مل سکے گا ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نیب قوانین میں اپنی مرضی کی ترمیم چاہتی ہے ،حکومت اگر واقعی اپنے مفاد اور مرضی کے مطابق نیب قوانین میں ترمیم کی خواہش مند ہے تو اس سے احتسابی عمل مزید متنازعہ ہو جائے گا ‘جس کا نشانہ بظاہر اپوزیشن کی جماعتیں ہوں گی،کیونکہ اپنی مرضی کے چیئرمین نیب، ڈپٹی چیئرمین نیب اور پراسکیوٹر کی تقرری کے بعد حکومت کو اپوزیشن جماعتوں سے کوئی خطرہ نہیں ہو گا اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قانونی ماہرین نیب قوانین کا جائزہ لے کر جو رپورٹ پیش کریں گے ‘ اس رپورٹ کو بحث کیلئے ایوان میں پیش کیا جائے’ دونوں ایوان جن ترامیم پر متفق ہو جائیں ‘ وہ قوانین نیب کے احتسابی عمل کیلئے لازمی قرار دئیے جائیں ‘ اس کیساتھ ساتھ ملک بھر میں جہاں مزید عدالتوں کے قیام کی ضرورت ہے اس ضرورت کو فوری طورپر پورا کیا جائے’ اگر موجودہ احتساب عدالتیں مقدمات کا بوجھ اٹھانے کیلئے ناکافی ہیں تو جس قدر جلدی ممکن ہو اس کمی کو دور کیا جائے تاکہ مقدمات کے بوجھ کی وجہ سے ٹرائل میں تاخیر نہ ہو اور شفاف احتساب کی راہ میں کوئی رکاوٹ اثر انداز نہ ہو سکے۔

مزید پڑھیں:  بی آر ٹی بسوں میں خواتین کی ہراسگی