آنکھوں میں دھول جھونکنا بلکہ جوتوں سمیت آنکھوں میں گھسنا جیسے محاوروں کی تو اب کوئی وقعت ہی نہیں رہ گئی۔ رہی بات وہ گزشتہ کچھ برسوں سے ایک نئے بیانئے کی کہ ” ادارے ایک پیج پر ہیں” تو جہاں خود سرکار کے بڑے ایک پیج پر نہ ہوں وہاں دوسرے اداروں کیساتھ ایک پیج پر ہونے اور ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز کا تاثر قائم کرنے کی بات ہی لاحاصل اور فضول بحث کے زمرے میں آئے گی۔ اب دیکھ لیجئے نا کہ درپیش صورتحال میں کس کی بات درست ہو سکتی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے حوالے سے خبر آئی ہے کہ انہوں نے آٹا بحران کا نوٹس لے کر گندم کا آٹا فوری ریلیز کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ صوبائی حکومت نے پاسکو سے مزید گندم خریدنے کیلئے رابطہ کرلیا ہے اور در آمد کیلئے وفاق سے مذاکرات کا ڈول ڈالا ہے۔ ساتھ ہی فلور ملز کی بندش کی خبروں کی تردید کی گئی ہے جبکہ وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات وبلدیات نے صوبے میں آٹے کے بحران کو پروپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے میں ایک خاص مافیا عوام کو سستا اور بروقت آٹا پہنچانے کے حوالے سے ایسا تاثر دے رہا ہے کہ صوبے میں گندم کا کوٹہ ختم ہوچکا ہے’ لیکن اس میں کوئی صداقت نہیں بلکہ اس کے پیچھے مافیا کے مفادات ہیں۔ یوں جب ہم دو بڑوں کے ان متضاد بیانیوں کو دیکھتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں کہ کس کی بات درست ہے اور کس کی نہیں۔ اگر تو وزیر اعلیٰ محمود خان کے موجودہ صورتحال کا نوٹس لینے کی بات صحیح ہے تو پھر معاون خصوصی کامران بنگش کی بات کو کہاں فٹ کیا جائے۔ یہ صورتحال کیوں پیدا ہوئی حالانکہ واقفان حال ایک عرصے سے اس جانب توجہ دلاتے ہوئے صوبے کی ضرورت کے مطابق گندم کی خریداری پر زور دے رہے تھے تاہم اسی دور میں پنجاب سے گندم کے حصول میں حکومت پنجاب ہی رکاوٹیں ڈال رہی تھی۔ یہاں تک کہ آٹے کی در آمد پر بھی قدغن لگا کر صوبہ خیبر پختونخوا میں آٹے’ میدہ وغیرہ لانے نہیں دے رہی تھی مگر تب صوبے کی حکومت لمبی تان کر سوئی ہوئی تھی اور اب جو جاگی ہے تو جھوٹی سچی باتیں کرکے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والے محاورے کے پیچھے چھپنے کی ناکام کوششیں کر رہی ہے۔ گویا بقول شاعر
بہلا رہے ہیں اپنی طبیعت خراں نصیب
دامن پہ کھینچ کھینچ کے نقشہ بہار کا
مافیا کے مفادات کی بات کو اگر درست تسلیم کرلیا جائے تو سوال اُٹھتا ہے کہ مافیا کو قابو کون کرے گا؟ ایوبی آمریت کا زمانہ یاد آرہا ہے جب حبیب جالب نے کہا تھا کہ بیس روپے ہے من آٹا’ اس پر بھی ہے سناٹا’ اس دور میں تو چینی کے نرخوں میں صرف چار آنے سیر اضافے کے بعد ہی ملک کے طول وعرض میں چینی چور کے نعرے تو کم ازکم بلند ہونا شروع ہوگئے تھے مگر اب تو جیسے عوام کی بے حسی اور حالات سے لاتعلقی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے’ حکومتی اکابرین دو سال کے اقتدار کے باوجود جب ہر طرف سے ناکامی کا سامنا کر رہی ہے’ اپنی ناکامیوں کو بھی پچھلوں کے کھاتے میں ڈالنے اور عوام کو یہ تاثر دینے میں مگن ہے کہ یہ سارا کچھ پچھلوں کی کارستانی ہے۔ ارے بھائی دو سال سے تو وہ پچھلے نیب کی پیشیاں بھگتنے میں مصروف ہیں، آپ کا ہاتھ کس نے روکا تھا کہ عوام کی فلاح وبہبود کیلئے اقدام مت اُٹھائو مگر آپ کی غلط پالیسیاں اب آپ کے سامنے آرہی ہیں تو ہرطرف بحران ہی بحران سر اُٹھا رہے ہیں۔ مافیاز کی چیرہ دستیوں نے عوام کو لوٹنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی اور اس کانتیجہ اب عدلیہ کے احکامات کے باوجود 70روپے کلو چینی تو دور بین میں بھی نظر نہیں آتی بلکہ تازہ خبروں کے مطابق سو روپے کلو سے کم پر نہیں مل رہی ہے۔ آٹے کی مہنگائی اور قلت کی خبروں اور اس کے نتیجے میں نانبائیوں کی جانب سے روٹی کے وزن اور قیمت میں اضافے کی من مانیاں جاری ہیں تو ان مافیاز کا ہاتھ کون روکے گا؟ مرحوم سید فرید اللہ شاہ جب پشاور کے ڈپٹی کمشنر تھے تب شاید 50ء کی دہائی کا آخر یا 60ء کی دہائی کاابتدائی دور تھا (بعد میں کمشنر ہوئے)’ گرمیاں آنے سے پہلے ہی انہوں نے پشاور میں برف بنانے کے کارخانوں کے مالکان کو بلوا کر انہیں تنبیہ کی تھی کہ میں جانتا ہوں’ گرمیوں کے موسم کی انتہا یعنی جون تا اگست’ آپ لوگوں کے آدھے کارخانے خراب ہو جاتے ہیں اور ایک ایک مہینہ خراب رہتے ہیں پھر جو ”مرمت” کے بعد ٹھیک ہو جاتے ہیں تو باقی کے کارخانے خراب ہو جاتے ہیں’ یوں بازار میں برف کی قلت سے آپ مل کر تجوریاں بھرتے ہیں’ اس لئے اپنے کارخانوں کی ضروری مرمت ابھی سے کر لیں اور اگر سیزن کے دوران کوئی کارخانہ خراب ہوگیا تو پھر وہ ہمیشہ کیلئے خراب رہے گا بلکہ اس کا پرمٹ بھی منسوخ ہو جائے گا، اس چتاؤنی کا اثر ظاہر ہے اس سال برف کا کوئی کارخانہ ”خودساختہ خرابی” سے دوچار نہ ہوسکا۔ موجودہ صورتحال میں فلور ملز مافیا کی مبینہ ناجائز منافع خوری کے ماحول میں ایک توانا اور مہربان آواز میجر عامر کی سنائی دی ہے جنہوں نے کہا ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں آٹے پر سیاست کرنے والے مفاد پرستوں کیساتھ کسی بھی صورت تعاون نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ کرے کہ جو مافیا موجودہ صورتحال سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر عوام پر مہنگائی تھوپ رہا ہے وہ میجر عامر کی تقلید کرتے ہوئے سستا آٹا بازار میں لانے اور تجوریاں بھرنے سے باز رہے۔ خدا جانے کس ترنگ میں یہ شعر مجھ سے سرزد ہوا تھا کہ
امن مدینے کے اندر تم جھانکو تو
ہر منڈیر پر فاختہ اک رقصاں ہوگی
Load/Hide Comments