حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ایک ”بزرگ” سے ملاقات کیلئے نکلے۔ اس علاقے کے مدرسے میں ایک عالم سے ملے، جو مصروف درس تھے، انہیں اپنے ارادے سے مطلع کیا کہ تمہارے اس شہر میں ایک بزرگ ہے میں اس سے ملنے آیا ہوں۔ اس عالم دین نے کہا: آپ نے ضرور سنا ہوگا مگر وہ شخص اس قابل نہیں کہ آپ ان سے ملیں، آپ کو اس کے پاس نہیں جانا چاہئے۔ شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ جب میں یہاں تک سفر کر کے آیا ہوں تو ملنے میں کیا حرج ہے۔ وہاں جا کر دیکھا کہ شراب کا دور چل رہا ہے۔ بزرگ نے شیخ صاحب کو اپنے قریب بٹھایا اور ان کے سامنے شراب پیش کی۔ حضرت شیخ نے کہا شراب تو حرام ہے، میں اسے کس طرح پی سکتا ہوں؟ مگر نام نہاد پیر نے کہا بزرگوں کیلئے حرام نہیں لو! پی لو۔ ہم صاحب حال لوگ ہیں۔ شیخ نے کہا کہ جب نبی کریمۖ کیلئے حرام تھی پھر کسی اور شخص کیلئے کیسے حلال ہو سکتی ہے یہ جھوٹ ہے۔
حضرت شیخ اس محفل سے اُٹھ گئے، وہیں قریب کسی جگہ پر رات کو آرام کیا۔ رات کو خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ جنت خوب سجی ہوئی اور بارونق ہے مگر اسے تالا لگا ہوا ہے اور اس کی چابیاں اسی شراب خور پیر کے ہاتھ میں ہیں۔ شیخ نے اس سے چابیاں طلب کیں۔ اس نے کہا جب تک شراب نہیں پیو گے چابیاں نہیں ملیں گی۔ شیخ نے کہا مجھے ایسی جنت نہیں چاہئے جو شراب نوشی سے مل جاتی ہے۔ غرض یہ کہ اس خواب کو شیخ نے ایک ہی رات میں 53دفعہ دیکھا۔ ہر بار یہی منظر سامنے آتا تھا، آخری بار جناب رسول اقدسۖ کی خواب میں زیارت ہوئی کہ اپنے یاروں کی محفل میں تشریف فرما ہیں اور ان کے مبارک ہاتھوں میں ایک لکڑی ہے جس سے زمین کو کرید رہے ہیں۔ شیخ کہتے ہیں: میں آپۖ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آقائے کریمۖ نے مجھے اپنے قریب بٹھا لیا، میں نے آپۖ کے سامنے اپنا اور اس شرابی بزرگ کا قصہ رکھا۔ آقاۖ نے فرمایا: کہاں ہے وہ؟ میں نے دیکھا وہ شخص آگے سے ہماری طرف آرہا ہے، میں نے عرض کیا: وہ ہے، جو سامنے سے آرہا ہے۔ آقاۖ نے اس کی طرف وہ لکڑی پھینکی اور فرمایا: ”انقلب کلبا” (یعنی کتا بن جا) اسی دوران میری آنکھ کھل گئی۔ تب میں واپس چلا تاکہ اس نام نہاد پیر کو دیکھ لوں، جب میں ادھر پہنچا، وہ وہاں نہیں تھا۔ اس کے مریدوں نے کہا اس کی تو شکل کتے کی بن گئی اور وہ یہاں سے چلا گیا۔
(کشف القرآن، جلد4 صفحہ 57,56)
Load/Hide Comments