سازشی تھیوریوں کے نقاد اکثر یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہر معاملہ میں سازش نہیں ہوتی مگر پاکستان میں تو ہربات میں ہی سازش نظر آتی ہے۔ پچھلے دس سالوں کے دوران قومی ایئرلائن کے گیارہ سربراہان تبدیل ہوئے یعنی کوئی بھی سربراہ اوسطاً ایک سال کی مدت بھی پوری نہیں کر سکا۔ ایف بی آر نے بھی پچھلے بائیس ماہ میں چار سربراہان تبدیل ہوتے دیکھے یعنی سربراہی کا اوسط دو چھ ماہ فی کس سے بھی کم رہا۔ ہمارے ہاں جس طرح بیوروکریسی کام کرتی ہے اس کے مطابق تو اتنے عرصے میں کسی نئے سربراہ کی ویلکم پارٹیاں بھی ختم نہیں ہوتیں اور یہاں اتنے عرصہ میں انہیں رخصت کا پروانہ پکڑا کر کسی اور جگہ دعوتیں لینے بھیج دیا جاتا ہے۔ ایف بی آر کے آخری سربراہ جس طرح اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے، وہ محلاتی سازشوں پر لکھے گئے کسی ناول کا کوئی باب لگتا ہے۔ ایک طرف تو عدالت عظمیٰ کی جانب سے ایف بی آر کو سو دنوں کے اندر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کی بیرون ملک جائیدادوں اور اثاثوں کے بابت تحقیق کر کے رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب حکومت نے ایف بی آر کے نئے سربراہ کو صرف نوے دن کیلئے مقرر کیا ہے اور وہ بھی تب جب آخری سربراہ صرف دو ماہ پہلے ہی تعینات کئے گئے تھے۔ اب اس سب کو کیا کہا جائے؟ یہاں تو وہ محاورہ کہ جس کا کام اسی کو ساجے اپنے معنی تبدیل کر چکا ہے۔ ایف بی آر کے حال ہی میں تعینات کردہ سربراہ جناب جاوید غنی کو شاید اسی لئے عارضی بنیادوں پر تعینات کیا گیا ہے تاکہ اگر انہیں تبدیل کیا جائے تو کوئی اس پر سوال نہ اُٹھا سکے۔ پر اگر وہ اس عہدے پر لمبے عرصہ کیلئے براجمان رہنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی قابلیت ثابت کرنا ہوگی اور یہاں قابلیت کا کسی طور بھی آمدن بڑھانے سے کوئی تعلق نہیں۔ اس بات کی بنیاد یہ ٹھہری کہ ایف بی آر نے اپنی سابق سربراہ نوشین امجد کی سربراہی میں سال2020 کیلئے تین دفعہ نظرثانی کے بعد مقررکردہ محصولات کا ہدف حاصل کر لیا تھا مگر پھر بھی وہ تبدیل کر دی گئیں۔ اب ناقدین یہ نقطہ اُٹھا سکتے ہیں کہ کئی دفعہ کم کئے جانے والا ہدف حاصل کر لینا کوئی کامیابی نہیں جو شاید درست دلیل بھی ہو۔ پر اگر انہیں بری کارکردگی کی بناء پر برخواست کیا گیا ہوتا تو ان کی او ایس ڈی کے طور پر تنزلی کی جاتی ناکہ انہیں وفاقی سیکریٹری کا عہدہ تفویض کر دیا جاتا جو ہماری بیوروکریسی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ عام حالات میں یہ تمام کلیدی عہدے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس سے وابستہ افسران کو ہی دئیے جاتے ہیں مگر حالیہ مثالوں سے یہی سامنے آتا ہے کہ اگر آپ کسی کو حقیقت افشا کرنے سے باز رکھنا چاہتے ہیں تو اسے ایسی ہی چیزوں میں منہمک رکھنا ایک بہتر حل ثابت ہو سکتا ہے۔ اب بھلا آپ خود ہی بتائیے کہ محکمہ محصولات کے افسر کو ثقافت وورثہ کا سیکریٹری لگانے کا کیا جواز ہو سکتا ہے۔ یہ تو تبھی ممکن ہے جب ہم محصولات کی چوری کو اپنے قومی ورثے اور ثقافت کا حصہ سمجھیں۔دلچسپ بات یہ کہ ایف بی آر کی جانب سے مارچ2019 میں ایک بین الاقوامی ٹیکس ڈائریکٹوریٹ تشکیل دیا گیا تھا، یہ وہی وقت ہے جن دنوں جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس تیار کیا جارہا تھا۔ یہ ریفرنس سرکاری طور پر مئی2019 میں صدر مملکت کی جانب سے بھیجا گیا تھا۔ ایسے بین الاقوامی ڈائریکٹوریٹ کی تشکیل میں کوئی قباحت نہیں مگر ایساکوئی اقدام کسی بھی فرد پر دباؤ کیلئے آلۂ کار کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ کہا جاتا ہے کہ جج اپنے فیصلوں کے ذریعے بولتے ہیں اور جسٹس عیسیٰ کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ انہیں اس حد تک دباؤ کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا کہ وہ ہماری سیاست کی تلخ حقیقتوں سے صرف نظر کرنے لگیں۔ وہ ہمارے ہاں اقتدار کے حامل کئی سیاستدانوں کے برعکس کمرے میں موجود ہاتھی کے بارے میں نشاندہی کرتے نہیں جھجکتے۔ اب جبکہ وہ اٹھارہ ستمبر 2023 میں تیرہ ماہ کی مدت کیلئے چیف جسٹس بننے جا رہے ہیں تو ان کے بابت عدالتی فیصلے کے اس حصے کی بازگشت بھی زیادہ سنائی دی جانے لگی ہے جس کے مطابق ایف بی آر ان نے ان کے بیرون ملک اثاثہ جات اور ان کیلئے ذرائع آمدن کے حوالے سے تحقیقات کرنی ہے۔ کیا ایک صاف گو جج کیخلاف ایسے ہتھکنڈے باقی ججوں کو ہمارے ہاں کی ”مروجہ روایات” سے بغاوت کرنے سے باز رکھنے اور دھمکانے کیلئے ہیں؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ بدقسمتی سے اس سازش کے بے نقاب ہونے سے کچھ جماعتوں کا بھی فائدہ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں عوامی تاثر ہی من پسند نتائج حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ عام تاثرات پر مبنی فیصلے جلدبازی کے فیصلے ہوتے ہیں اور جلدبازی کے فیصلوں میں انصاف کم ہی ہوتا ہے۔ آخر میں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ یہ صرف میرا تجزیہ ہے، یہ میرے ذہن کی اختراع کی ایک کاوش ہے اور اس تخیل کی کسی بھی حقیقی صورتحال سے مماثلت محض اتفاق ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ مقتدر حلقے ریاستی معاملات کو مجھ سے کئی گنا بہتر سمجھتے ہیں اور وہ اپنا اقتدار پچھلی دہائیوں میں کئی دفعہ ثابت بھی کر چکے ہیں۔
(بشکریہ ڈان، ترجمہ: خزیمہ سلیمان)
Load/Hide Comments