آج جولائی کے مہینے کی 28تاریخ ہے اور پاکستان سمیت ساری دنیا میں کرونا سے زیادہ خطرناک مرض ہیپاٹائٹس کے متعلق جان کاری کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔2011ء میںعالمی ادارہ صحت کی جانب سے پہلی بار اس موذی مرض کیخلاف دن منایا گیا جو تادم اشاعت جاری ہے اور اس طرح اس مرض کے لاحق ہونے اور اس سے بچنے کی تدابیر کرنے کے متعلق ہم تک بہت سی معلومات پہنچی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ہر سال 1.4 ملین لوگ اس موذی مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس کو اُردو اور اس قبیل کی دیگر زبانوں میں یرقان کہتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس کو انسانی صحت یا اس کی زندگی کا چھپا ہوا دشمن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا وائرس جب کسی صحت مند فرد کی رگ وپے میں داخل ہوتا ہے تو اسے اس کا فوری علم نہیں ہوتا اور یوں یہ وائرس اسے اندر ہی اندر سے کھوکھلا کرتا رہتا ہے اور جب اس مرض کی تشخیص ہوتی ہے تو اچھا خاصا وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ ہیپاٹائٹس امراض کے ایسے گروپ سے تعلق رکھتا ہے جس کی نہ تو درست طور پر تشخیص کی جاتی ہے اور نہ ہی اس کا مناسب علاج کیا جاتا ہے،
جگر کے داغ چھپاؤ قمر خدا کیلئے
ستارے ٹوٹتے ہیں ان کے دیدۂ نم سے
ہیپاٹائٹس جگر کے کام کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے، اس مرض کے پیدا ہونے کی وجہ جگر کی سوجن یا جگر کا انفیکشن بھی بتایا جاتا ہے، اچھی صحت کیلئے جگر کا درست ہونا بہت ضروری ہے، ہم جو کچھ کھاتے ہیں اس کو ہضم کرنے میں جگر ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، خدانخواستہ جب جگر کی کارکردگی میں کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو خوراک ہضم ہوکر جز وبدن نہیں بنتی اور یوں جگر کی خرابی کا مریض کمزوری محسوس کرنے لگتا ہے، ذرا سا کام کرکے تھک جاتا ہے، لیکن اسے اس بات کا علم ہی نہیں ہو پاتا کہ اس کیساتھ ایسا ستم کیوں ہورہا ہے، جگر کے مریضوں کے خون میں پلیٹ لیس کی کمی واقع ہونے لگتی ہے، مریض کا دل خراب ہونے لگتا ہے، اسے متلی آنے کا خدشہ لاحق ہوجاتا ہے، جسم کے مختلف حصے سوجنے لگتے ہیں، جلد کی رنگت بدل کر زردی مائل ہونے لگتی ہے، کھانے پینے کی خواہش ختم ہوجاتی ہے اور مریض تھوڑے ہی عرصہ میں نحیف ونزار ہوجاتا ہے۔
جگر میں ٹیس لب ہنسنے پہ مجبور
کچھ ایسی ہی ہماری زندگی ہے
جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے، طبی ماہرین کے مطابق ہیپاٹائٹس کی متعدد قسمیں ہیں جن میں ہیپاٹائٹس ‘اے’ یرقان کی زیادہ خطرناک قسم نہیں اور یرقان کی اس قسم میں مبتلا مریض اکثر اوقات بغیر کسی علاج کے تندرست ہو جاتے ہیں جبکہ ہیپا ٹائٹس ‘بی’ اور ‘سی’ اس مرض کی درجہ بدرجہ خطرناک اقسام سمجھی جاتی ہیں یعنی ہیپا ٹائٹس سی کا مریض ہیپا ٹائٹس بی سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے اور اس کا علاج قدرے پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ ‘مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی’ کے مصداق لاعلاج ہوجاتا ہے۔ ہیپا ٹائٹس بی کے مریضوں کو بھوک نہیں لگتی، انہیں ہیضہ یعنی اسہال اور متلی آنے کی شکایت لاحق ہوجاتی ہے، مریض کے معدے میں درد رہتا ہے، پٹھوں اورجوڑوں میں بھی کمزوری در آتی ہے اور درد کی تکلیف رہتی ہے اور اس کے جسم اور آنکھوں کی رنگت کا پیلا ہونا ہیپا ٹائٹس بی کے مریضوں کی علامات بن کر سامنے آتا ہے، میڈیکل سائنس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہیپا ٹائٹس بی کے مریضوں کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو اس سے جگر کا کینسر ہونے کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں اور مریض ہیپا ٹائٹس بی سے ہیپا ٹائٹس سی کے خطرناک درجے تک پہنچ جاتا ہے اور یوں ہیپا ٹائٹس مرض کے اس درجے یا اس قسم کا مریض نہایت کربناک حالت میں زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہیپا ٹائٹس بی کی وجہ سے داعی اجل کو لبیک کہہ دیتے ہیں، ہیپا ٹائٹس بی یا سی سے بچنے کیلئے گربہ کشتن روزاول کے مصداق ضروری ہے کہ نومولود بچوں کو 18 ماہ کی عمر سے پہلے یا اس عمر کے دوران ہیپا ٹائٹس سے بچاؤ کے ٹیکے لگا دئیے جائیں، اگر کوئی بچہ والدین کی غفلت یا کسی اور وجہ سے ٹیکے لگانے سے رہ جائے تو اسے بالغ ہونے کی عمر یعنی 18برس کی عمر تک ہیپا ٹائٹس سے بچاؤکی ویکسین پلائی جاسکتی ہے۔ ہیپا ٹائٹس بی مرض کا خطرناک درجہ ہے لیکن ناقابل علاج ہرگز نہیں جبکہ ہیپا ٹائٹس سی اس مرض کی نہایت پیچیدہ اور خطرناک قسم ہے۔ ہیپا ٹائٹس سی کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ یہ مرض اپنے مریض کو خاموشی سے چاٹتا رہتا ہے اور جب مرض کے آثار ظاہر ہوتے ہیں تو پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے اور یوں لاعلاج ہونے کے بعد مریض تڑپ تڑپ کر جان جان آفریں کے حوالہ کرکے لقمہ اجل بن جاتا ہے، بتایا جاتا ہے کہ ہرسال لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس مرض کا شکار ہوکر ہلاک ہوجاتے ہیں، ہیپاٹائٹس جیسے مرض کیخلاف عالمی سطح پر منایا جانے والا یہ دن ہماری توجہ تیزی سے پھیلنے والی کرونا جیسی عالمگیر وباء سے ہٹا کر ہیپا ٹائٹس کی تباہ کاریوں کی جانب دلانا چاہتا ہے جیسے کہہ رہا ہو کہ ہوش کے ناخن لو، صرف کرونا ہی نہیں نوع انسانیت کی دشمن۔
کہتا ہے یہی تم سے شعور جگر افگار
سونپا ہے اگر درد تو درماں کی خبر لو
Load/Hide Comments