p613 72

کورونا سے احتیاط،خطرہ ابھی ٹلا نہیں

اس میں کوئی شک نہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کورونا پر قابو پانے اور اس کے پھیلائوکی روک تھام کیلئے حتی المقدور اقدامات کئے لیکن کورونا پر قابو پانے کے حوالے سے حکومتیں جو دعویٰ کر رہی ہیں وہ قبل از وقت ہیں شرح اموات میں کمی اور کورونا وائرس کا شکار ہونے والوں کی تعداد میں کمی ضرور آگئی ہے لیکن اس کی شرح میں اتنی واضح کمی نہیں آئی ہے جس پر اطمینان کا اظہار کیا جا سکے حکومتی عہدیدارون کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ گویا کورونا وائرس کا خطرہ اب ٹل گیا ہے ان بیانات سے حوصلہ پاکر لوگوں نے احتیاطی تدابیر کی دھجیاں اڑانا شروع کردی ہیں امر واقع یہ ہے کہ کورونا کا خطرہ جب پوری طرح لوگوں کے اعصاب پر سوار تھا اور خوف کا عالم تھا اس وقت بھی عوام احتیاطی تدابیر پر اس طرح سے توجہ نہیں دیتے تھے جس کی ضرورت تھی خصوصاًخیبرپختونخوا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہوں نے اس پورے دورانیے میں ماسک کو ہاتھ تک نہ لگایا اور ہاتھ ملانے سے گریز کیا ہو ہاتھ دھونے کی زحمت بھی کم ہی گوارا کی جاتی رہی یہ معاملہ اپنی جگہ جن لوگوں نے حفاظتی تدابیر کا تکلف گوارا کیا وہ بھی پوری طرح سے اس کے تقاضوں کا خیال نہیں رکھتے اس وقت دیکھا جائے تو اکا دکا لوگ ہی ماسک کا استعمال کرتے نظر آئیں گے جس کی وجہ کورونا وائرس کے وباء کے ٹل جانے کا تاثر ہے خیبرپختونخوا میں جس روز سرکاری طور پر صرف ایک موت کی اطلاع جاری کی گئی اسی روز ایدھی کی جانب سے کورونا کے چار متاثرہ لوگوں کی موت کی تفصیلی رپورٹ اخبارات کو بھجوائی گئی اسی طرح کورونا سے متاثرہونے والوں کی تعداد میں کمی سے تو عدم اتفاق نہیں لیکن خطرہ بدستور موجود ہے اس حوالے سے حکومت اور متعلقہ محکموں کے عہدیداروں کو عوام کو اندھیرے میں رکھنے کی بجائے درست صورتحال سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری میں مصلحت سے کام نہیں لینا چاہیئے خود حکومت کی دوعملی اس سے بخوبی واضح ہے کہ وزیراعظم ایک جانب کورونا پر قابو پانے کا دعویٰ کررہے ہیں لیکن ساتھ ہی عید اور محرم یعنی تقریباً دوماہ احتیاط کے بعد ہی تمام کاروبار اور تعلیمی ادارے کھولنے کی منزل آنے کا عندیہ دے کر احتیاط کا مشورہ بھی دے رہے ہیں ہمارے تئیں وزیراعظم کاکورونا پر قابو پانے کے دعوے سے کہیں زیادہ حقیقت احتیاط اور عوامی تعاون کی بات ہے پنجاب میں دس روز کیلئے سخت لاک ڈائون اور عید پر بین الاضلاعی داخلہ کی بندش کے اقدام کی دیگر صوبوں کو بھی تقلید کرنی چاہیئے تاکہ کورونا کے پھیلائو کو مکمل طور پر روکنے کی حتمی سنجیدہ کوشش یقینی بنائی جائے۔گرمی کے موسم میں کورونا وائرس کی شدت میں کمی کے موسمی اثرات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ستمبر تک سنجیدہ حفاظتی اقدامات اختیار کر کے کورونا وائرس پر پوری طرح قابو پانے کی کوششوں کی ضرورت ہے یہ درست ہے کہ بعض کاروبار اور سیاحت اس سے شدید طور پر متاثر ہوئے ہیں اور تاجروں کی جانب سے مزاحمت ہورہی ہے مشکل یہ بھی ہے کہ تاجر دبائو ڈال کر کاروبار تو کھلوا دیتے ہیں لیکن احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور کروانے کی ذمہ داری نہ تو تاجر نبھاتے ہیں اور نہ ہی صارفین اور عوام ایسا کرنا گوارا کرتے ہیں اگر چہ سوائے چند ایک شعبوں کے سارا کاروبار کھل چکا ہے اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کو اب نفسیاتی طور پر بھی ضروری نہیں خیال کیا جارہا ہے عوام کو اس امر کا احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ ابھی خطرہ ٹلا نہیں بلکہ خطرے میں کمی کسی بھی وقت اضافے میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے جس سے بچنے کیلئے ضروری اقدامات سے صرف نظر مناسب نہیں۔حکومت کو عیدالاضحی کے موقع پر پنجاب کی طرز پر اقدامات اٹھانے میں ہچکچا ہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیئے۔

مزید پڑھیں:  بی آر ٹی بسوں میں خواتین کی ہراسگی