3 144

پیپلز پارٹی کے تین چہرے

گذشتہ ہفتے زیادہ تر پیپلز پارٹی خبروں میں رہی۔ بلاول بھٹو کی اے پی سی کوششوں سے لے کر مطیع اللہ جان کے گھر آمد تک، چیئرمین پی پی پی ہی خبروں کا عنوان تھے۔ اس کے ساتھ ہی کلبھوشن پر مودی کے یار کے نعرے بھی لگائے، عزیر بلوچ کے معاملے میں لاتعلقی اختیار کرنے کی کوشش بھی کی۔
جعلی اکائونٹس کیس تو ساتھ ساتھ شدومد سے چل ہی رہے ہیں۔ اوپر سے بھلا ہو مون سون کی اس بارش کا، جو گورننس کے سب دوعوں کی قلعی کھول کھول رہی ہے اور پی ٹی آئی کو جب بارش آتی ہے تو پانی آتا ہے کی گردان کا موقع مل جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی کو دیکھنے والوں کی رائے جگہ کے حساب سے بدلتی ہے۔ اسلام آباد میں پڑھے لکھے تجزیہ کار بلاول کی انسانی حقوق، پارلیمانی روایات اور آئینی بالادستی سے متاثر ہو کر ایک امید دیکھتے ہیں۔ ساتھ ہی شیری رحمان، رضا ربانی، نفیسہ شاہ اور مصطفی کھوکھر جیسے وسیع المطالعہ اور روشن خیال لیڈر بھی نظر آتے ہیں جو پارلیمانی سیاست میں ایک مباحثے اور مکالمے کے کلچر کو پروان چڑھاتے ہیں۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وفاق میں ہمیشہ موثر اپوزیشن بھی پیپلز پارٹی ہی کرتی ہے۔ دوسری طرف قانونی تبدیلیوں میں بھی سب سے موثر ٹریک ریکارڈ انہی کا ہے جس کا ثبوت اٹھارہویں ترمیم کی صورت میں نظر آتا ہے۔
وفاق سے کراچی تک کا سفر کریں تو پیپلز پارٹی کا دوسرا چہرہ نظر آتا ہے۔ یہاں پر وزیراعلی اور کچھ ٹیم ممبر میڈیا کو سمجھتے ہیں مگر زیادہ تر سٹیٹس کو اور خانہ پری ہے۔ کورونا میں کچھ حد تک سرگرمی دکھائی گئی مگر باقی شعبے اسی طرح چل رہے ہیں۔ صوبائی سطح پر پیپلز پارٹی کی مستقل پالیسی کراچی کے وسائل پر کنٹرول اور کراچی کے نمائندوں کو اختیار سے محروم رکھنا ہے۔ وہ جماعت جو وفاق سے صوبوں تک وسائل کی منتقلی کی سب سے بڑی علمبردار ہے وہ صوبے سے سب سے بڑے شہر تک وسائل اور اختیارات کے سوال پر سیخ پا ہو جاتی ہے۔
صوبائی حکومت میں کرپشن کے قصے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔اس بات سے پیپلز پارٹی کی پنجاب کی قیادت بھی شاکی نظر آتی ہے۔ وزیراعلی نیب میں پیشیاں بھگتتے ہیں اور سپیکر گرفتار اور کچھ وزرا گرفتار ہو کر اجلاسوں میں آتے ہیں۔ شوگر ملوں سے لے کر گندم تک اور پراپرٹی ڈیلروں سے لے کر جعلی پولیس مقابلوں تک مبینہ طور پر صوبائی حکومت کی آشیرباد شامل ہوتی ہے۔
پیپلز پارٹی کا تیسرا چہرہ اندرون سندھ میں نظر آتا ہے۔ یہ چہرہ لسانی اور جاگیر دارانہ چہرہ ہے۔ یہاں پر پیپلز پارٹی کی سیاست بہت پرانے مگر ابھی تک مروجہ سندھ کارڈ کے گرد گھومتی ہے۔ یہاں پارٹی اپنی لسانی جڑوں کو نمایاں دکھاتی ہے اور اس کی بنیاد پر لوگوں کو اپیل کرتی ہے۔ اس میں دوسرے صوبوں کی زیادتی کا ذکر بھی ہوتا ہے اور وفاق سے شکوے بھی۔
اندرون سندھ میں گورننس کا ماڈل البتہ جاگیردارانہ ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک تو سندھ کے ہر قابل ذکرسیاسی خاندان کو مراعات کے ذریعے پارٹی میں شامل کیا جاتا تھا۔ ووٹ اکھٹے کرنے کے لیے نوکریوں اور ترقیاتی کاموں کا سہارا بھی لیا گیا دوسری طرف کھل کر مراعات بھی بانٹی گئیں۔ کراچی اور اندرون سندھ ترقیاتی کاموں کے فرق کی بازگشت بھی اکثر سنائی دیتی ہے اور کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ سے پورے صوبے کے بجائے پیپلز پارٹی کے ووٹنگ والے علاقوں کو ہی فائدہ ہوتا ہے۔
پیپلز پارٹی اپنے تینوں چہرے علیحدہ رکھنے کی کوشش کرتی ہے مگر یہ کوشش زیادہ کامیاب نہیں ہوسکتی۔ یہ بات واضح ہے کہ سندھ کی حکومت کی اقتدار کی دوسری دہائی کے باوجود گورننس ایک خواب ہے۔ یہ بات بھی عیاں ہے کہ نظریات کی عملی تصویر زیادہ ضروری ہے خصوصا وہاں جہاں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے یعنی عوام کی دہلیز پر۔ اور سب سے ضروری یہ کہ کرپشن، بری گورننس اور نظریات ساتھ ساتھ نہیں چلا سکتے۔ پارٹی نے خود ان تضادات کو دور کرنے کا فیصلہ نہ کیا توعوام کی عدالت میں اس کا فیصلہ ضرور ہو جائے گا۔

مزید پڑھیں:  ایران کے ساتھ تجارت پراٹھنے والے سوال