2 241

بدلتا موسم

انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ موسموں کی شدت سے چیں بہ جبیں ہو جاتا ہے۔ سردی زیادہ ہوجائے تب پریشانی، گرم کپڑے، کمبل، لحاف، ہیٹر، آگ کی طلب اور گرمی ہو تب دم گھٹنے لگتا ہے۔ پنکھا، ایئرکنڈیشنر، فریج یا برف کا ٹھنڈا پانی، ہلکا پھلکا لباس اور خدا جانے کتنے طریقوں سے گرمی کو بہلایا جاتا ہے۔ زندگی بھی عجیب ہے، ہرگزرتا لمحہ زندگی میں نئی تبدیلیاں لے کر آتا ہے۔ انسان کو آسائش پر آسائش میسر ہوتی جاتی ہے، مگر مصیبت یہ ہے کہ کوئی آسائش ایسی ابھی تک ایجاد نہیں ہوئی جو انسان کو سکون قلب فراہم کرسکے۔ سکون قلب کی تلاش ہی میں تو انسان سرگرداں رہتا ہے۔ انسان کی کتنی بڑی غلط فہمی ہے کہ وہ اشیاء میں سکون تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے جو سرے سے ممکن ہی نہیں۔ ہرگزرا ہوا وقت آنے والے وقت سے اچھا ہوتا ہے یا ہمیں پرانا وقت بہتر لگتا ہے۔ اسے ماضی پرستی کہیں یا ناسٹلجیا، بہرحال انسان پرانے وقتوں میں جیتا ہے۔ گرمی پہلے بھی یونہی اپنی حشرسامانیوں کیساتھ آیا کرتی تھی اور آج بھی ہم اس سے نالاں ہیں۔ اب تو ہمارے پاس اس کے بہت سے توڑ موجود ہیں، اے سی کتنی بڑی نعمت ہے، اس کی ٹھنڈی ہوا میں تو لگتا ہی نہیں کہ کہیں گرمی ہے بھی، فریج کھولو اور ٹھنڈا ٹھار پانی پی لو۔ ذرائع آمد ورفت میں سہولتیں میسر ہیں، ماضی میں انسان اسی گرمی سے کیسے نبردآزما ہوتا ہوگا، جب بجلی کی سہولت بھی موجود نہیں تھی۔ اس وقت تو ہمت فین (ہاتھ کاپنکھا) ہی ایک واحد سہارا ہوتا ہوگا۔ ہمارے بچپن کے دنوں میں بھی اے سی وغیرہ کی عیاشی موجود نہیں تھی۔ دن کی تپش سے بچنے کیلئے تہہ خانوں میں بچھی ٹھنڈی بجری پر پاؤں رکھتے ہی سکون میسر ہو جاتا۔ اس زمانے میں باڑے کا پانی پائپوں میں آیا کرتا تھا۔ باڑے کا پانی آج بھی پرانے پشاوریوں کی یاد میں بستا ہے۔ انتہائی شفاف اور زودہضم پانی تھا۔ ہرگلی محلے میں ایک سرکاری نلکا لگا ہوتا تھا جہاں لوگ اپنی ضرورت کے تحت پانی بھر لیا کرتے تھے یا پھر بہشتی (ماشکی) اپنی چمڑے کی مشکوں میں پانی بھر بھر کر لوگوں کے گھروں تک ڈھوتے تھے، مگر گرمیوں میں نلکوں سے زیادہ کنوے کے ٹھنڈے پانی کی ڈیمانڈ بڑھ جایا کرتی تھی۔ کنوے کے ٹھنڈے پانی کو مٹی کے برتنوں میں رکھا جاتا تھا۔ گجراتی گھڑے اس سلسلے میں بڑے مشہور تھے۔ ان گھڑوں میں پانی دیر تک ٹھنڈا رہتا تھا۔ اسی طرح کچی زمین میں مٹی کی چاٹیاں آدھی آدھی دفن کردی جاتی تھیں تاکہ زمیں کی ٹھنڈک پانی کو ٹھنڈا رکھے، صبح سویرے اور عصر کے وقت گلیوں اور بازراوں میں بہشتی پانی کاچھڑکاؤ کر دیا کرتے تھے جس سے زمین کی تپش کم ہو جایا کرتی تھی۔ گرمیوں میں کمروں میں سونے کارواج نہ تھا۔ مکانوں کی چھتوں پر سارا شہر سوتا تھا۔شام کے بعد چارپائیاں بچھا دی جاتی تھیں۔ ہمسایوں میںکسی ایک چھت پر ریڈیو پر کوئی گیت چل رہا ہوتا۔ چاندنی آسمانوں سے چھن کر زمین پرآرہی ہوتی اور ٹھنڈے اور میٹھے آم۔یہ وہ گرمیاں تھیں کہ جن پرہزاروں بہاریں قربان کی جاسکتی ہیں۔ صبح و شام گرمی کی تاثیرکم کرنے کیلئے اسپغول، تخم ملنگا ملے گڑ کے شربت کا کتنا لطف ہوتا۔ بازاروں میں قلفیاں، میٹھی برف کے گولے، توتیا موتیا تو گلی گلی میں بکتے تھے۔ صاحب ثروت لوگ جو گھروں میں گائے بھینس رکھتے تھے، گرمی کے دنوں میں اپنے دروازے پر لسی کا بڑا سا مٹکا رکھ دیتے اور محلے کے لوگوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔ گرمی کی دوپہروں میں لوگ اکثر نہروں اور قدرتی چشموں کا رخ کیا کرتے تھے۔ پانی میں ڈبکیاں لگا کر گرمی کا زور کم کیا کرتے تھے۔ تربوز اور آم نہر یا چشمے کے پانی میں ٹھنڈے کرتے اور نہانے کیساتھ تازہ پھلوں کے مزے لیتے۔ اب تو چشمے زمین کے اندر کہیں ہلوپ ہوگئے ہیں۔ نہریں مستقل گٹر بن کر رہ گئی ہیں، عصر کے وقت لوگ شاہی باغ اور وزیر باغ کا رخ کرتے، گرمی وہی ہے لیکن اِس گرمی اور اُس گرمی میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ وہ گرمی زندگی کے قریب تر تھی۔ وسائل اور اشیاء نہ ہونے کے باوجود لوگوں نے اس موسم میں بھی زندگی جینے کا گر سیکھ لیا تھا۔ محبتیں اتنی زیادہ تھیں کہ احساس گھٹن کی زد میں جاتا ہی نہ تھا۔ صبر کی قوت اتنی قوی تھی کہ بے چینی قریب نہ پھٹکتی، قوت برداشت اتنی زیادہ تھی کہ موسموں کی کٹھنائیاں سہل ہو جاتی تھیں اور جینا آسان ہو جاتا تھا۔ آج ہمیں آسائشوں نے اتنا تن آسان بنا دیا ہے کہ ایک بجلی نہ ہو تو لگتا ہے کہ دم ہی گھٹ جائے گا۔ برداشت تو جیسے عنقا ہوگئی ہے۔ بجلی پر ہمارا مکمل گزران ہے اور ایک لمحہ بھی اس کے بغیر جینا دشوار لگتا ہے۔ ہماری حکومتیں بجلی کے حوالے سے ماضی میں دھکیل چکی ہیں لیکن ماضی کہاں ہے۔ نہ وہ شہر کی ٹھنڈی گلیاں، نہ وہ بازاروں میں لگی شربت کی سبیلیں، نہ ہی شہر کی گلیوں بازاروں میں لڑکوں بالوں کی بارش کی منت ماننے کیلئے ”چم چم مینہ مانگے، چڑی آٹا مانگے” کی صدائیں، ان کی صدا پر کوئی ریزگاری دیدے تو ٹھیک نہ دیتا تو منچلے اس پر پانی ڈال دیتے۔ خوب لڑائیاں ہوتیں، لیکن اگلے دن بارش بھی ہو جاتی۔ وسائل کی حد تک تو ہم ماضی میں جیتے ہیں لیکن قلبی طمانیت ماضی جیسی کہاں۔۔۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی