3 145

امریکی کانگریس میں مسئلہ کشمیر کی گونج

رواں ہفتے کے دوران دو واقعات ایسے رونما ہوئے جن کو بجاطور پر حسن اتفاق سے تعبیر کیا جاسکتا ہے یا ان کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک سنگ میل قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہوا یوں پہلے تو آئی ایس پی آر کی طرف سے وطن عزیز میں موجود غیرملکی صحافیوں کی ایک ٹیم کو چیری کوٹ سیکٹر کا دورہ کرایا گیا جہاں ٹیم کے جملہ ارکان نے بھارت کی طرف سے کی گئی بین الاقوامی سرحد اور فائربندی کی خلاف ورزیوں کا بچشم خود مشاہدہ کیا۔ اس موقع پر ٹیم کو بتایا گیا کہ بھارت نے اپنی سرحد کے اندر تین حدوں پر مشتمل ایسی رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں اور دفاعی ومزاحمتی عسکری انتظامات کر رہے ہیں جن کے نتیجے میں پاکستان کی طرف سے کسی قسم کی افرادی مداخلت ناممکن ہے۔ موقع پر موجود پاک فوج کی طرف سے ان صحافیوں کو بتایا گیا کہ2015ء سے اب تک بھارت نے پاک سرحد اور لائن آف کنٹرول کی 11815 مرتبہ خلاف ورزی کی ہے۔ صرف گزشتہ ایک برس کے دوران 1697 مرتبہ ایسی ہی خلاف ورزیاں کی گئیں جن کے نتیجے میں14شہری شہید اور 135 شہری شدید زخمی ہوگئے۔ ٹیم کے ارکان کو تفصیل سے بتایا گیاکہ پاکستان کی طرف سے سرحدی خلاف ورزیوں کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اس موقع پر پاک سرحد پر آباد اور موجود سول آبادی سے بھی ٹیم کا مکالمہ ہوا۔ ایک نو عمر بچی سے لیکر ایک عمر رسیدہ بزرگ تک مختلف افراد نے ان خطرات کی نشاندہی کی جو بھارتی فائرنگ کے نتیجے میں درپیش ہوتے ہیں۔ ایسے میں وہ زخمی بھی سامنے آئے جو بھارتی فائرنگ کے نتیجے میں عمر بھر کیلئے اپاہج اور معذور ہوگئے ہیں۔ٹیم کے ارکان نے بعدازاں غیر رسمی گفتگو میں اعتراف کیا کہ ان کو پہلی مرتبہ بھارتی جارحیت اور اشتعال انگیز فائرنگ کے بارے میں براہِ راست مشاہدات اور تجربات حاصل ہوئے ہیں۔
دوسرا واقعہ یہ رہا کہ امریکی کانگریس میں مسئلہ کشمیر کی گونج اس وقت سنائی دی جب کانگریس کے نمائندے آسٹیووانکٹڑ نے کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کا اصلی چہرہ بے نقاب کر دیا۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ جمہوریت اور جموں کشمیر کی اصل صورتحال اس کے سواء کچھ نہیں کہ وہاں پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔ اس کا اندازہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران جموں وکشمیر کو مکمل طور پر لاک ڈاؤن کر دیا گیا جس کے نتیجے میں متاثرہ افراد کو طبی امداد اور علاج معالجے کی سہولیات میسر نہ آسکیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک تشویشناک واقعہ ہے جس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ امریکی کانگریس ممبر نے یہ حقیقت بھی بیان کی کہ پوری جموں وکشمیر وادی میں انٹرنیٹ کی سروس بند کر دی گئی ہے چنانچہ وہاں پر عوام کا باقی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ امریکی کانگریس میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کسی رکن نے اظہار خیال کیا ہو۔ اس سے پہلے بھی متعدد مرتبہ مسئلہ کشمیر کو جملہ ارکان کانگریس زیربحث لاتے رہے ہیں اور اس حقیقت کا برملا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ مقبوضہ وادی کشمیر میں بھارتی تسلط ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکا ہے اور ایسے میں انسانی حقوق کی پامالی روزمرہ کا معمول بن گئی ہے۔ کانگریس ارکان کے علاوہ سول سوسائٹی نے بھی مسئلہ کشمیر کی سنگینی کو زیربحث لایا جاتا ہے۔ یہ حقیقت تسلیم کی جاتی ہے کہ مقبوضہ وادی کے عوام گزشتہ سات عشروں سے اپنے اس حق خودارادیت سے محروم چلے آرہے ہیں جن کا وعدہ ان سے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے کیا گیا تھا۔ اس بات پر بھی حیرت اور ملال کا اظہار کیا جاتا ہے کہ مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج کا غیرمعمولی اجتماع اس خدشے کو درست ثابت کرتا ہے کہ جموں وکشمیر کی یہ خوبصورت وادی بھارتی سرکار کی ظالمانہ حکمت عملی بلکہ سازش کے نتیجے میں ایک ایسی فوج چھاؤنی میں تبدیل ہوگئی ہے جہاں پر عورتوں کی عزت محفوظ نہیں، بچوں کے سامنے سفاکانہ مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ نوجوانوں کو ماورائے عدالت واقعات میں شہید کر دیا جاتا ہے اور بزرگوں کی سرعام توہین کا ارتکاب بھی کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ امریکی سول سوسائٹی میں یہ واقعات ایک اعتبار سے مجرمانہ واقعات خیال کئے جاتے ہیں۔ دوراندیش اور امن پسند امریکی شہری بجاطور پر بھارتی حکومت کی ان پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے ہیں جو نئی دہلی نے مقبوضہ کشمیر میں جاری رکھی ہوئی ہیں۔
آزادکشمیرکے صدر سردار مسعود خان کا یہ بیان انتہائی فکرانگیز قرار دیا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی ایڈمنسٹریٹو کونسل نے اس تجویز کی منظوری دیدی ہے جس کے تحت کنٹرول آف بلڈنگ آپریشن ایکٹ 1988 اور ڈویلپمنٹ ایکٹ 1970 میں ترمیم کی جاسکے گی۔ اس ترمیم کا واحد اور اولین مقصد یہ ہے کہ بھارتی فوج کو جو علاقہ مطلوب یا پسند ہو اس علاقے کو تذویراتی علاقہ قرار دیکر فوری طور پر حاصل کر لیا جائے اور وہاں پر اپنی مرضی کے مطابق تعمیرات کی جائے۔ صدر آزاد کشمیر نے یہ نشاندہی بھی کی کہ جموں وکشمیر کی کٹھ پتلی انتظامیہ پہلے ہی243ہیکٹر کا رقبہ بھارتی فوج کے حوالے کرچکی ہے اور اس سے بھی پہلے 21400 ہیکٹر کا وسیع رقبہ بھارتی فوج کے قبضے میں ہے۔ مذکورہ نئے قانون کے تحت کسی بھی نجی رہائشی یا زرعی علاقے کو تذویراتی علاقہ قرار دیکر اس پر قبضہ کیا جاسکے گا۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟