5 14

آئی ایم ایف کاتمغۂ ”حسن کارکردگی”

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے نمائندوں اور وزارت خزانہ کے حکام کے درمیان مذاکرات کے بعد آئی ایم ایف نے ایک اعلامیہ جاری کرکے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت میں بہتری توقعات سے بڑھ کر ہے۔ پاکستان نے اصلاحات پر عمل کیا اور مالی خسارہ کم اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے ہیں۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اب مہنگائی کم ہو جائے گی۔ پاکستان کی معاشی پالیسی متوازن ہے اور پاکستان نے اس کے تحت کئی شعبوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی معیشت کی بحالی کا عمل کا شروع ہوگیا ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے ملکی معیشت کی بحالی کی نوید تازہ ہوا کا خوشگوار جھونکا ہے۔ اس وقت آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام کے درمیان اعصاب شکن مکالمہ جاری ہے۔ آئی ایم ایف بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے پر مُصر ہے اور اس بڑھوتری کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑرہا ہے اور پاکستان کے حکام اب عوام کی معاشی کمر پر مزید بوجھ ڈالنے سے گریزاں ہیں بلکہ اس کی مزاحمت بھی کی جارہی ہے۔ آئی ایم ایف بہت سے اداروں کی نجکاری پر بھی زور دے رہا ہے جس کے نتیجے میں بیروزگاری میں اضافے کا خدشہ بھی ہے۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ خبر دی گئی تھی کہ وزیراعظم عمران خان نے عام آدمی کی مشکل بڑھنے کے پیش نظر ہی گیس اور بجلی کی قیمتوں کی منظوری کی فائل روک دی ہے۔ آئی ایم ایف عالمی چھچھوندر ہے جو جس قوم وملک کے جسد کو چمٹ گئی پھر اس کا خون نچوڑ کر ہی دم لیتی ہے مگر آئی ایم ایف کو اپنی قہرمانیوں اور حشر سامانیوں کا موقع وہ ممالک اور حکومتیں فراہم کرتے ہیں جو اپنی معاشی پالیسیوں کو سنجیدہ، باوقار اور طویل المیعاد، خودکفالت پر مبنی بنانے کی بجائے ”ایڈہاک ازم” پر چلاتی ہیں۔ عدم توازن کا شکار معاشی پالیسیاں، کرپشن اور وسائل کا غلط استعمال ملکوں کیلئے قطرہ قطرہ زہر ثابت ہوتا ہے۔ جب ملک معاشی دیوالیہ پن کے قریب پہنچتے ہیں تو وہ خوابِ غفلت سے جاگ کر ہاتھ پاؤں مارتے ہیں اور یوں انہیں معاشی حالات کی بہتری کیلئے کشکول اُٹھا کر آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینا پڑتی ہے۔ آئی ایم ایف ظاہر ہے کہ دینے والا ہاتھ ہے وہ اپنی فراہم کردہ قرض کی رقم کیساتھ من پسند شرائط بھی رکھتا ہے۔ بجٹ بنانے اور رقم کے استعمال کا طریقہ اور شرائط بھی رقم کی ہر قسط کیساتھ چپکی ہوتی ہیں۔ زندہ وبیدار قومیں آئی ایم ایف سے قرض لیکر اپنی معاشی پالیسیوں کو ٹھیک کرتی ہیں اور قرض ادا کرکے آئی ایم ایف کو خیرباد کہتی ہیں مگر پاکستان کا المیہ یہ ہوا کہ آئی ایم ایف کے در کا پہلا پھیرا ہی اس کیلئے دلدل میں قدم رکھنے کے مترادف ثابت ہوا۔ یہ پاکستان کے پیراسائٹ بننے کے عمل کا آغاز بنا اس کے بعد سے پاکستان کو بطور ریاست آئی ایم ایف کے قرضوں پر اپنا کاروبارحیات اور کاروبار مملکت چلانے کی عادت ہوگئی۔ کبھی کبھار کشکول توڑنے کے نعرے تو سنائی دیتے رہے مگر یہ نعرے عملی شکل اختیار نہ کر سکے۔ ہر قسط کیساتھ ہر دور میں آئی ایم ایف کا شرائط نامہ منسلک ہوتا رہا اور بجٹ کی تیاری اور قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ اس کا لازمی حصہ ہوتا رہا اسی لئے اس ملک میں قیمتیں کبھی کم نہیں ہوئیں البتہ اتنا ہوا کہ کچھ حکومتوں نے آئی ایم ایف کیساتھ مذاکرات میں چابک دستی کا مظاہرہ کرکے اس کی کڑی شرائط کو نرم کرایا۔ یہ ایک عارضی انتظام تھا اس کا نتیجہ بھی وقتی ہی رہا۔ ملک میں ہر حکومت نے اپنے دن اچھے گزارنے اور عوام کو وقتی طور پر مطمئن رکھنے کیلئے اپنی پالیسی اپنائی جس سے پالیسی کا تسلسل نہ رہ سکا۔ اس ایڈہاک ازم میں ملکی معیشت بازیچہ اطفال بنی رہی۔ آئی ایم ایف حالات کا ایک جبر ہے اور یہ جبر پاکستان کیساتھ ہوتا رہا ہے۔ آج پاکستان کو آئی ایم ایف کی سند کارکردگی کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے یہ کوئی خوشی کی بات نہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان اس معاشی غارتگر ادارے کا دست نگر ہے۔ آئی ایم ایف نے کرپشن کو کبھی سنجیدہ موضوع نہیں بنایا۔یہ سب ایک قرض تھا سود جس کا لازمی حصہ تھا۔ قرض کی ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ اور سود درسود الگ تھا۔ یوں ہماری نسلیں مقروض پیدا ہو رہی تھیں۔ ہر پیدا ہونے والے بچے کا انتظار قرض کا بوجھ کررہا ہوتا تھا۔ ایڈہاک ازم کی اس پالیسی کو بدلنا ضروری تھا مگر کوئی عوام کی ناراضگی مول لینے کو تیار نہ تھا۔ طعن وتشنیع اور تبروں کا جو ملبہ عمران خان کی حکومت پر آگرا ہے یہ کسی نہ کسی پر گرنا ضرور تھا مگر ہر کوئی اس سے خوفزدہ اور گریزاں تھا۔ پھر معاشی حالات کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے آئی ایم ایف کے اصل حکمت کاروں کو کچھ ایسی یقین دہانیاں کرائی جاتی تھیں جنہیں پورا کرنا ان کے بس میں نہیں ہوتا تھا اور یہیں سے وہ کھچ کھچ شروع ہوتی تھی جسے پھر سول ملٹری کشمکش کا نام دیا جاتا ہے۔ حکومت نے میڈیا کی کڑی تنقید کے باجود وہ مشکل اور کڑے فیصلے کئے جن کو مصلحتوں کے بنا مدتِ دراز سے ٹالا جا رہا تھا۔ اب یہ اُمید پیدا ہوئی ہے کہ ملکی معیشت کی بحالی کے ایڈہاک ازم اور وقتی واہ واہ کی بجائے ایک حقیقی اور پائیدار بنیاد تیار کی جائے گی۔ ایک ایسی بنیاد جس پر تعمیر ہونے والی عمارت خودداری اور خودانحصاری کا مجموعہ ہوگی اور ہمیں دوبارہ آئی ایم ایف کی راہداریوں کا طواف نہیں کرنا پڑے گا۔ آئی ایم ایف کی طرف سے ٹیکسوں کا دائرہ بڑھانے کی بات خدا لگتی اور اصولی ہے۔ خود ملکی سطح پر اس حقیقت کا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ ملک میں ٹیکس دہندگان کا دائرہ بڑھنے کی بجائے سکڑتا جا رہا ہے۔ ٹیکس نہ دیکر ہم حقیر سا انفرادی فائدہ تو حاصل کرتے ہیں مگر یہ عمل ہمیں اجتماعی خودکشی کی طرف بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔

مزید پڑھیں:  بارش سے پہلے چھت کا انتظام کیوں نہیں؟