2 32

مشرقیات

ٍ17ہجری میں قیصر روم نے حمص پر دوبارہ قبضہ کرنے کی بھر پور کوشش کی اور اہل جزیرہ کی تحریک پر ایک بڑی فوج حمص کی طرف روانہ کی ، اہل جزیرہ بھی تین ہزار جنگجوئوں کے ساتھ حمص کی طرف بڑھے ۔ امیر شام حضرت ابو عبید ہ نے ادھر ادھر سے فوجیں جمع کر کے حمص کی حفاظت کی تیاری کی اور ساتھ ہی حضرت عمر فاروق کو رومیوں اور اہل جزیر ہ کی ملی بھگت اور ان کے عزائم کی اطلاع دی ۔ امیر المومنین نے یہ اطلاع ملتے ہی حضرت قعقاع کو حکم بھیجا کہ فوراً کوفہ سے چار ہزار سوار لے کر حمص پہنچ جائیں ۔ ساتھ ہی حضرت سہیل بن عدی ، حضرت ابن اعتبان اور حضرت ولید بن عقبہ کو اہل جزیر ہ سے نمٹنے کے لیے مناسب ہدایت بھیجیں ۔ان تدابیر کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل جزیرہ کو اپنے گھر کی فکر پڑگئی اور وہ رومیوں کا ساتھ چھوڑ کر واپس آگئے ۔ اب حمص کے محاصرے پر صرف رومی اوران کے مددگار چند عرب قبائل رہ گئے ۔ حضرت ابو عبیدہ ایک دن شہرسے باہر نکل کر ان کے مقابل ہوئے ۔ اس وقت حضر ت قعقاع منزلوں پر منزلیں طے کرتے حمص کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ ابھی شہر سے چند میل دور تھے کہ انہوں نے مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان لڑائی چھڑ جانے کی خبر سنی ۔ ان کے ساتھ اس وقت صر ف سو سوار تھے اور فوج کا بڑا حصہ ابھی پیچھے تھا لیکن اس خبر نے حضرت قعقاع کو ایسا بے تاب کردیا کہ وہ باقی فوج کا انتظار کیے بغیر سو سواروں کے ساتھ ہی برق رفتاری سے حضرت ابو عبیدہ کے پاس پہنچ گئے ۔ ان کی آمد سے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور سب نے مل کر دشمن پر ایسا تندو تیز حملہ کیا کہ اس کے قدم لڑکھڑا گئے ۔ اس شرمناک شکست کے بعد رومیوں کو پھر کبھی مسلمانوں کے خلاف پیش قدمی کی جرأت نہ ہوئی ۔ (اثرالامراء ، بزم رفتہ کی سچی کہانیاں )عدل نور الدین زنگی کا وہ امتیازی وصف ہے ، جس نے آپ کوہر خاص وعام کا محبوب بنا دیا ۔ عدل کو عام کرنے کے لیے آپ نے عام عدالتوں کے علاوہ دمشق میں ایک دارالعدل قائم کیا ، جس میں بنفس نفیس تشریف فرما ہوتے ، لوگوںکی شکایات سنتے اور انصاف دیتے ۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ صاحب نے حضرت سلطان شہید پر ناجائز دعویٰ کیا ۔ قاضی نے آپ کو عدالت طلب کیا ۔ آپ جب عدالت جانے لگے تو قاضی کے پاس پیغام بھیجاکہ میرے ساتھ کوئی خصوصی معاملہ ہر گز نہ ہو ، ہم دونوں میں برابری کریں ۔ پھر آپ عدالت پہنچے اور ایک عام آدمی کی طرح مدعی کے سامنے بیٹھ گئے ۔ بہرحال عدالتی کارروائی میں مدعی ثبوت پیش نہ کرسکا اور سلطان پر کچھ بھی ثابت نہ ہوا ۔ فیصلے کے بعد سلطان نے قاضی صاحب اور حاضرین سے پوچھا کہ ان کا مجھ پر کوئی حق بنتا ہے ؟ سب نے کہا کہ نہیں ، تو سلطان نے فرمایا کہ مجھے معلوم تھا کہ میں حق پر ہوں ، لیکن اگر میں حاضری نہ دیتا تو انہیں شکایت ہوتی کہ میںنے ان پرظلم کیا ہے ۔ اب میں تمہیں گواہ بنا تا ہوں کہ میں نے انہیں یہ مال ہبہ کردیا ہے ۔ واضح رہے کہ سلطان کی ذاتی زندگی بڑی تنگ دستی سے گزرتی تھی ۔

مزید پڑھیں:  پختونوں سے ''ناروا سلوک''؟؟