tanveer ahmad 22

پشاور کی قید بامشقت

ہمارے یہاں چلنے والی مقامی بسوں میں خواتین کیلئے علیحدہ سیکشن بنایا گیا ہے جہاں صرف خواتین ہی بیٹھ سکتی ہیں لیکن اب اس کا کیا علاج کہ بہت سے حضرات بھی خواتین کے سیکشن میں جلوہ افروز نظر آتے ہیں جب خواتین تشریف لے آتی ہیں تو ان حضرات کو خواتین کیلئے مخصوص سیکشن سے نکالنا کنڈکٹر کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ان کے پاس بڑے سکہ بند قسم کے جملے ہوتے ہیں جناب خواتین کیلئے گھر سے نکلنا مناسب نہیں ہے ایک بزرگ فرما رہے تھے کہ مستورات کیلئے گور ہے یا کور! ہمیں ان کی بات سن کر وہ بزرگ یاد آگئے جو کسی بیمار خاتون کیساتھ ہسپتال تشریف لائے تھے اور ڈاکٹر کے کلینک کے باہر اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے، ہم بھی اسی سلسلے میں وہاں تشریف فرما تھے۔ موصوف خواتین کے گھر سے نہ نکلنے کے حوالے سے بڑے پرجوش دلائل دے رہے تھے، وہ خواتین کی تعلیم کے بھی مخالف تھے ان کا کہنا تھا کہ لڑکی کو سکول یا کالج بھجوانا انتہائی نامناسب ہے، لڑکیوں کو چاہئے کہ گھر میں بیٹھ کر صرف اور صرف امور خانہ داری سرانجام دیں، ان کا گھر سے باہر نکلنا باعث فساد ہے، آج کل جہاں دیکھئے خواتین کے حقوق کے حوالے سے بات ہو رہی ہے، یہ سارا انگریز کا پھیلایا ہوا فساد ہے یہ ہمارے دشمن ہیں ہمیں ان کے دھوکے میں نہیں آنا چاہئے۔ ہم نے بزرگ کی باتیں بڑے غور سے سنیں اور ان سے پوچھا کہ آپ کیساتھ بیمار خاتون کی طبیعت کیسی ہے؟ ہمارے ہمدردانہ لہجے نے انہیں اپنائیت کا احساس دلایا تو انہوں نے ہماری طرف جھک کر دھیمی آواز میں کہا کہ یہ میری شریک حیات ہیں ایک عرصے سے بیمار ہیں کوئی زنانہ تکلیف ہے گھر کے ٹوٹکے بہت استعمال کئے لیکن افاقہ نہیں ہوا، اب مجبوراً ڈاکٹر کے پاس لانا پڑا ہے۔ ہم نے بزرگ سے پوچھا کہ کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ آپ کی زوجہ محترمہ کی بیماری کا علاج کوئی مرد ڈاکٹر کرے؟ انہوں نے باآواز بلند استغفراللہ پڑھتے ہوئے کہا کہ ہرگز نہیں! زنانہ بیماری کا علاج مرد ڈاکٹر سے کروانا بڑی بے شرمی کی بات ہے۔ ہم نے بزرگ سے مؤدبانہ عرض کی کہ جناب عالی ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ خواتین کے حوالے سے کہہ رہے تھے کہ ان کیلئے گھر مناسب ترین جگہ ہے ان کو سکول کالج نہیں جانا چاہئے۔ آج جس لیڈی ڈاکٹر کے پاس علاج کیلئے آپ اپنی شریک حیات کو لیکر آئے ہیں اگر یہ اپنے گھر سے نہ نکلتی تعلیم حاصل نہ کرتی تو پھر آپ کی بیوی کا علاج کیسے کرتی؟ کبھی آپ اس طرح بھی سوچئے۔ اسلام تو دین فطرت ہے ہمیں دینی تعلیمات میں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ تعلیم کا حاصل کرنا مرد اور عورت دونوں پر فرض کر دیا گیا ہے۔ بزرگ کو بہ امر مجبوری ہماری بات سے اتفاق کرنا پڑا پھر خود ہی کہنے لگے کہ ہماری تعلیم نہیں ہے بس سنی سنائی باتیں دہراتے رہتے ہیں! آپ کی بات درست ہے مرد حضرات کیساتھ ساتھ خواتین کیلئے بھی تعلیم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ ہم تو دیہات کے رہنے والے ہیں غربت کی وجہ سے تعلیم کا حصول ہمارے لئے بہت مشکل تھا اب ہمارے بچے پڑھ رہے ہیں یہ آنے والے دنوں میں ہماری اُمید ہیں۔ ہم اپنی بچیوں کو بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں گے یہ تعلیم نہ ہونے کی وجہ ہے کہ ہمارے گاؤں میں آج بھی بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا بہت مشکل ہے، لوگ لڑنے مرنے پر تل جاتے ہیں۔ ہم نے بابا جی کی باتیں سنیں تو دل میں خیال آیا کہ سچی بات کا یقینا اثر ہوتا ہے اگر ان سادہ لوح مخلص لوگوں کو بات سمجھا دی جائے تو یہ اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ ایک طرف ہمارے لوگ ہیں جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ پشاور میں تجاوزات کیخلاف بڑا کامیاب آپریشن ہوا تھا لیکن اب پھر دکانداروں نے آہستہ آہستہ اپنی دکانوں سے آگے نکل کر فٹ پاتھ بند کر دئیے ہیں، اب تو فٹ پاتھ نظر ہی نہیں آتے ان پر تو اب چھوٹی چھوٹی دکانیں سجی نظر آتی ہیں۔ قصہ خوانی جیسا خوبصورت اور تاریخی بازار بھی تجاوزات کی زد میں ہے ان فٹ پاتھوں پر مزے مزے کی خوبصورت انگوٹھیاں بیچنے والے اپنے شوکیس سجائے دیکھے جاسکتے ہیں ان کے پہلو میں گھڑیوں کو خوبصورت شوکیسوں میں سجا کر بیچنے والے براجمان ہیں۔ ذرا سا آگے بڑھیے تو بجلی کا ساز وسامان فٹ پاتھ کی زینت بنا دیکھا جاسکتا ہے۔ ضروریات زندگی لوگوں کو شہروں کی طرف کھینچ لاتی ہیں لیکن اس بدانتظامی کی وجہ سے لوگوں کا فٹ پاتھوں پر چلنا پھرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ ہشت نگری چوک میں فٹ پاتھ پر اخبار بک رہے ہیں کتابیں کاپیاں قلم بک رہے ہیں یوں لگتا ہے جیسے پوری قوم نے تعلیم حاصل کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ فٹ پاتھ پر بنے ہوئے ان ہی سٹالوں کے پہلو میں فوٹو سٹیٹ مشینیں سجی ہوئی ہیں جن کے آگے فوٹو سٹیٹ کروانے والوں کا ہجوم راہگیروں کی راہ میں رکاوٹ بنتا نظر آتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پشاور کو تجازوات کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے نہ جانے پشاور کی یہ قید بامشقت کب ختم ہوگی؟

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''